ترقی یافتہ ممالک میں کہا جاتا ہے کہ پولیس عوام ہے اور عوام پولیس۔ پولیسنگ میں سب سے اہم بات انصاف اور ہمدردی ہے۔ بے شک پولیس افسر کی پہلی ذمہ داری قانون کی پاسداری ہے، مگر یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے کہ تمام لوگوں سے عزت اور احترام کا برتاؤ کیا جائے۔ اہلِ علم کے نزدیک قانون عوامی ضمیر ہے اور پولیس عوام کو نافذ کرنے والا ادارہ ہے۔ دنیا بھر میں پولیس کے سلوگنز کا مفہوم تقریباً یہی ہے کہ حفاطت کرنا اور خدمت کرنا مگر افسوس پاکستان میں پولیس لوگوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ہے خدمت کیلئے نہیں اور جہاں ایسی ایسی صورتحال ہوتی ہے وہاں معاشرہ ناکام ہو جاتا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں پولیس قانون نافذ کرنے کیلئے قانون کی پابندی نہیں کرتی۔ وہ طاقت کا استعمال کرتی ہے اور یہ طے ہے کہ طاقت بدعنوان ہوتی ہے اور مطلق طاقت بالکل کرپٹ ہوتی ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کیلئے کچھ خبریں درج کرنا چاہ رہا ہوں۔ کراچی میں سرنڈر کرنے کے باوجود پولیس اہلکار ڈاکو پر فائرنگ کرتا رہا اور اسے قتل کر دیا۔ دیکھنے والوں نے ویڈیو تک بنائی۔ اسلام آباد پولیس نے ایک نا بینا شخص کا ڈرائیونگ لائنس جاری کر دیا۔ ستمبر میں اسلام آباد پولیس نے جرائم میں شریک ہونے پر اپنے تین اہلکاروں کو برطرف کر دیا۔ نومبر میں ضلع کورنگی تصویر محل پولیس چوکی کے سابق انچارج کو جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر ملازمت سے نکال دیا گیا۔ اسی سال کراچی میں سی ٹی ڈی چار اہلکاروں کو چار شہریوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے اور انھیں رشوت لے کر رہا کرنے کے الزام میں نوکری سے برخاست کیا گیا۔ اس سے پہلے جنوری میں سی ٹی ڈی کے دو افسران اغوا برائے تاوان میں ملوث پائے گئے، انھیں بھی نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں حالیہ دنوں میں مبینہ پولیس مقابلوں میں اضافہ دیکھنے میں آ یاہے۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پولیس مقابلے بھی بڑھ رہے ہیں مگر پولیس مقابلے میں مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر سوالیہ نشان ہے۔ اسی سال جولائی میں آئی جی پنجاب کے مراسلے نے پنجاب پولیس کے افسران اور اہلکاروں کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ پنجاب پولیس کے 45 افسران اور اہلکار مبینہ طورپر منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث پائے گئے اور اسمگلر وں کے سہولت کار نکلے۔ آئی جی پنجاب نے اپنے مراسلے میں ان کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کیا۔ اگر ماضی کی بات کی جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق مطابق دو ہزار تیرہ سے دو ہزار سترہ کےدوران494 ڈی ایس پیز۔ 9ہزار 315انسپکٹرز،54ہزار 313سب انسپکٹرز، 53ہزار 645اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، 1لاکھ 76ہزار 850ہیڈ کانسٹیبلز اور کانسٹبیلز مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔ کانسٹیبل سے ڈی ایس پی تک 3904ملازمین کرپشن میں ملوث نکلے ۔ 9759 ملازمین نے نوکری میں غفلت اور لاپرواہی کی۔3217نےاپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ قانون کے رکھوا لوں کے خلاف سنگین نوعیت کے 4ہزار 13مقدمات درج کیے گئے۔ دادرسی کیلئے آنے والے 645سائلین کے ساتھ ناروا سلوک جبکہ 238عام شہریوں کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا۔5سال کے دوران 495 افراد حراست کے دوران بے جا تشدد سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ پولیس اہلکاروں نے جرائم پیشہ افرادکی ملی بھگت سے 1381ملزموں کوحراست سے فرار کرایا۔ اگر معروف کیسز کی بات کی جائے تو کراچی میں ایک نوجوان خالد خان کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ واقعہ 2018ءمیں سامنے آیا تھا اور اسکے بعد عوام میں پولیس کے خلاف غم و غصہ پیدا ہوا تھا۔ ماڈل ٹائون کیس ہم سب کے سامنے ہے۔ کراچی میں نقیب اللہ محسود، ایک پشتون نوجوان، کو 2018میں پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ جسے پولیس نے دہشت گرد قرار دیا، مگر بعد میں ثابت ہوا کہ وہ بے گناہ تھا اور پولیس نے اسے قتل کرنےکیلئے جھوٹا مقابلہ بنایا تھا۔ رشوت ستانی کا حال یہ ہے کہ پولیس نے کبھی تنخواہوں کی کمی کا بھی رونا نہیں رویا۔ ٹریفک پولیس اس معاملے میں سرِ فہرست ہے۔ طاقت کا ناجائز استعمال اور غنڈا گردی پولیس کا طرہِ امتیاز ہے۔ کہیں بھی پولیس کا کردار عوام کیلئے شفاف اور غیر جانبدار نہیں۔ پولیس کی منشا کے بغیر منشیات کی خرید و فروخت ہو ہی نہیں سکتی۔ جتنے جھوٹے مقدمات پولیس نے پچھلے دو سال میں درج کیے ہیں اتنے شاید پچھلے دس سال میں درج نہیں ہوئے۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور آئی جی صاحبان کواس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ میرے کچھ مشور ے ہیں اگر ان عمل ہو سکے تو میں سمجھتا ہوں کہ پولیس میں بہتری آئے گی۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کو اخلاقی تربیت دی جائے تاکہ وہ اپنے اختیارات کا درست استعمال کریں۔ دوسرا پولیس کے جرائم کی تحقیقات کیلئے ایک آزاد ادارہ قائم کیا جائے تاکہ شہریوں کو انصاف مل سکے۔ تیسرا پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے تاکہ وہ اپنے کام کو شفاف اور موثر طریقے سے انجام دے سکے۔ چوتھا جب پولیس اہلکاروں کے خلاف الزامات ہوں، تو ان کے خلاف فوری تحقیقات اور سخت کارروائی کی جائے۔ ادارے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاکہ ختم ہوتے ہوئے عوامی اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔