• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شعبہ صحافت میں چیئرپرسن کی تعیناتی متنازعہ بنانے کوشش کی گئی

پشاور (خصوصی نامہ نگار) جامعہ پشاور کے ترجمان نے شعبوں کے سربراہوں کی تعیناتی کے حوالے سے اخبارات میں چھپنے والی خبر اور سوشل میڈیا ویڈیو لاگ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ پشاور میں تدریسی شعبوں کے سربراہوں بالخصوص جرنلزم و ماس کمیونی کیشن کے شعبہ میں چیئرپرسن کی تعیناتی کو بلا وجہ متنازعہ بنانے کوشش کی گئی ہے اور اسے حقائق کے برعکس قرار دیا ہے۔ خیبر پختونخوا یونیورسٹیز ایکٹ 2016 اور سیکشن 11 کی شق 5 اے اور متعلقہ سٹیچیوٹس کے مطابق جامعہ پشاور کی مجاز اتھارٹی یعنی وائس چانسلر کسی بھی فیکلٹی ممبر کو تدریسی شعبہ کا سربراہ مقرر کرسکتے ہیں۔ تدریسی شعبہ میں سٹیچیوٹس کے مطابق سربراہ کی تعیناتی کیلئے اولین طور پر پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر میں سے چناؤ کیا جاتا ہے۔ جرنلزم و ماس کمیونیکیشن شعبہ میں تعیناتی کے وقت ایک پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے درمیان تعیناتی کا فیصلہ ہونا تھا جو کہ وائس چانسلر نے اپنی صوابدیدی اختیار میں کیا۔ وی لاگ میں ویژن اور مشن سٹیٹمنٹ کو بھی تعیناتی کے وقت متعلقہ امیدواروں کی جانب سے جمع کرانے کو لازمی قرار دیا گیا تاہم نہ تو ایکٹ اور نہ ہی سٹیچیوٹس میں اس کا ذکر ہے بلکہ اس عمل کو ایک روایت کے طور پر لیا جاتا تھا جس کو سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد ادریس کے دور میں سنڈیکیٹ کے ایک فیصلے سے یکسر ختم کر دیا گیا تھا، وی لاگ میں صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم محترم مینا خان آفریدی کو ان تمام تعیناتی میں مبینہ طور پر ملوث کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے امید ہے کہ وی لاگر وزیر موصوف سے اس عمل پر صحافتی ذمہ داری کے تناظر میں معذرت کریں گے کیونکہ وزیر موصوف شب و روز جامعات کے مسائل کے حل میں بالعموم اور جامعہ پشاور کی ترقی کیلئے بطور ایلومینائی بالخصوص دن رات کوشاں ہیں جامعہ پشاور قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتی ہے۔ جامعہ پشاور مینا خان آفریدی کی بطور وزیر خدمات، ویژن اور میرٹ کی بالادستی کے اصولی موقف کی تائید کرتی ہے اور خبر کو جامعہ پشاور کی خودمختاری اور ساکھ متاثر کرنے کی کوشش قرار دیتی ہے اور امید کرتی ہے ذمہ دارانہ صحافت معاشرے میں جامعہ پشاور کے اعلیٰ مقام کی لاج رکھے گی۔
پشاور سے مزید