نصرت یوسف
مئی کی چلچلاتی دھوپ اور بائیک کا سفر، زندگی کو گھنٹہ بھر ہی میں شکووں سے بَھردیتا ہے۔ بڑبڑاہٹ، غصّہ، ناگواری کے ساتھ بلڈنگ کے گیٹ پر جھٹکے سے سواری روکتے اُس نے پیچھے بیٹھی بیوی سے ترشی سے کہا۔ ’’اب اُتر بھی جاؤ، بائیک اوپر نہیں جائے گی۔‘‘ حفصہ نے اپنا بیگ سنبھالتے حیرت سے اُسے دیکھا، جو پچھلے ماہ تک تو بہت ہی مہذّب تھا، لیکن اب ناگواری جیسے ناک پر دھری رہتی تھی۔ ’’مجھے پتا ہے، تمہارے پاس بائیک ہے، جہاز نہیں۔‘‘ بظاہر تو یہ بات اُس نے ہنستے ہوئے کہی تھی، لیکن انس کی بھنویں تن گئیں، وہ تیز قدم اُٹھاتا لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔
وہ اپنا یونی ورسٹی بیگ سنبھالے اُس کے پیچھے لپکی، لیکن لفٹ پانچویں منزل کی جانب روانہ ہو چُکی تھی۔ گھر تو وہ پہنچ گئی، لیکن انس کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کو دل نہ تھا۔ ’’بدتمیز، جاہل، گنوار!!‘‘ دل میں اس کو القابات سے نوازتی وہ دہی پھیٹنے لگی۔ دوپہر کھانے کے لیے اُس نے دہی پھلکیاں گزشتہ رات ہی بنا کر فریج میں رکھ دی تھیں، کچھ سالن بھی تھا، اچھا بھلا کھانا اُس گرم دوپہر میں میسّر تھا، لیکن انس کے رویے نے حفصہ کو بددل کر دیا۔
وہ خُود بیس برس کی نئی شادی شدہ اور زیرِ تعلیم طالبہ تھی۔ دو ماہ قبل ہی اُس کی شادی انس سے ہوئی تھی۔ انس کے والدین اِسی بلڈنگ کے چھٹے فلور پر رہتے تھے۔ حفصہ کی جاری پڑھائی اور حالات دیکھتے یہی مناسب تھا کہ دونوں کو الگ رہائش دی جائے، تاکہ حفصہ کو گھر کی ذمّے داریوں سے بھی کچھ آشنائی ہو۔ یہ فیصلہ بظاہر تو حفصہ اور انس کو خوش گوار ہی لگا، لیکن پھر سسرال کی مہینہ بھر کی خاطر مدارات کے بعد بتدریج گھٹتے ہوئے انتظامی تعاون سے حفصہ کو خاصی مشکل ہونے لگی۔
اُس کی امّی نے اُس پر کبھی کسی ذمّے داری کا بوجھ نہ ڈالا تھا، خُود گھن چکر بنی رہتیں یا ملازمہ سے کام کرواتیں کہ اُن کےخیال میں، بچّے تو تعلیمی اداروں ہی نے اپنے نام کر لیے تھے۔ ہاں، دوستوں کےساتھ طویل فون کالز، پارٹیز اور اسکرین کے لیے اُن کو وقت ضرور مل جاتا تھا۔ گھر کا بجٹ، نظم وضبط، لوگوں کے ساتھ میل جول، یہ سب سیکھنے کا نہ اُن کے پاس وقت ہوتا تھا اور نہ ہی انھیں کوئی دل چسپی تھی۔
ماں باپ بھی بڑے ناز سے کہتے۔ ’’پڑھائیاں ہی آج کل کی اتنی مشکل ہیں، اب بچّے اِن کے ساتھ اور کیا کریں؟‘‘ اِسی لیے تھکن سے چُور ماں جب بستر پر آتی، تو ہاتھ اٹھا کے دُعا کرتی کہ ’’میری لاڈو کو کھاتا پیتا شوہر ملے کہ گھر کا کام تو سارا دن ختم نہیں ہوتا۔‘‘ حالاں کہ اچھا بھلا گھرانہ تھا، بس کام کی تقسیم میں خامیاں تھیں۔ پانچ افراد میں سے دو ہی تھے، جو ہر طرح کی ذمّے داریاں نبھا رہے تھے۔ باپ نے معاشی اور ماں نے گھر کے تقریباً سارے بوجھ اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھے تھے۔
صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ پانی کی موٹر باپ نے چلانی اور اُسی نے بند بھی کرنی ہوتی۔ اِس دوران ماں پائپ سے پودوں کو پانی دیتی اور پھر بچّوں کے لنچ اور ناشتے کی تیاری۔ کام والی مددگار خادمہ کے ساتھ لگ کر گھر کی، برتنوں کی صفائی، کپڑوں کی دُھلائی، کھانے کی وقت پر تیاری، اور نہ ختم ہونے والے گھر کے کاموں کی طویل فہرست، شام ڈھلے، صُبح کے دُھلے کپڑوں کا ڈھیر۔ بعض اوقات شوہر کو سخت ناگوار گزرتا، لیکن بیوی کے پاس تو فرصت ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی تھی۔
سو، وہ کبھی کبھی چڑ کر کہہ بھی دیتا۔ ’’بچّوں سے بھی کچھ مدد لیا کرو۔‘‘ ارے بچّوں کو پڑھائیوں سے فرصت کہاں؟‘‘ماں ڈھال بنتی، تو وہ چُپ ہو رہتا۔ بچّوں کا اپنا مُوڈ ہوتا تو کبھی مدد کر بھی دی جاتی۔ اور اُس دن ماں نہال ہو کر خُوب متشّکر ہوتی کہ اُسے کچھ وقت فرصت کا مل جاتا، جس میں وہ کاؤچ پر نیم دراز ہو کر اپنی بہن سے ایک طویل گفتگو کرتی۔ کسی فرصت کے دن آئینہ غور سے دیکھ لیتی، تو اندازہ ہوتا کہ بال اور کھال توجّہ مانگ رہے ہیں۔ ’’ارے کہاں سے لاؤں وقت؟‘‘ بڑبڑاہٹ نما خُودکلامی کرتی اور کریم نکال کر مساج شروع کردیتی۔
’’مما! آپ اپنی بالکل کیئر نہیں کرتیں۔ پپا نے بھی اپنے آپ کو بُھلا دیا ہے۔ بینش کی مام نے اسکن ٹریٹ منٹ لیا ہے۔ ایسی پیاری لگتی ہیں۔‘‘ کسی بچّے کے ایسے کسی تبصرے پر بس وہ اُسے دیکھ کے ہی رہ جاتیں۔ اور اِن ہی شب و روز کے دوران سب سے بڑی بیٹی حفصہ کا رشتہ طے ہوگیا۔ نہ صرف طے ہو گیا، بھاگتے دوڑتے تیاریاں کرتے وہ رخصت بھی ہوگئی۔
دنیا کہتی ’’بڑی خوش قسمت ہے بھئی، سسرال کے جھنجھٹ سے آزاد زندگی جی رہی ہے۔‘‘ مگر حفصہ، جس کا کبھی ذمّے داریوں سے کوئی واسطہ ہی نہ پڑا تھا، آرٹی فیشل انٹیلی جینس کی مہارتوں میں اسٹارز لینے کے باوجود آج زندگی کے’’ایسا کیوں ہے…؟؟‘‘ ہی میں الجھ کے رہ گئی تھی۔
ہر روز اُس کے سامنے ایک نیا سوال کھڑا ہوتا اور اُسے لگتا عورت کے لیے دنیا بڑی ظالم ہے۔ یہاں تک کہ چیٹ جی پی ٹی کے پاس بھی انس کو انسان بنانے کا کوئی نسخہ نہیں۔ ’’ہماری ماں نے تو ہمیں ایسا نہیں پالا۔‘‘ اُسے انس کے گھر کے کاموں میں برابری نہ کرنے پر سخت چڑ ہوتی اور کسی کتاب، کسی گروپ اور کسی ایپ سے ملنے والا کوئی بھی مشورہ اُسے انس پر اثرانداز ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔
’’ مما، پپا نے بھی کس کنگلے کے ساتھ پھنسا دیا؟‘‘ گروسری کے لیے دیئے پیسوں کو گنتے اُسے پتنگے لگ چُکے تھے۔ ’’میرا تو اِس کے ساتھ گزارہ نہیں مما!‘‘ ماں کو ویڈیو کال پر اپنی رَف ہوتی اِسکن دکھاتی، وہ رو دینے کو تھی۔ ماں کو دھچکا سا لگا، لیکن مُسکراتے بولی۔ ’’سوچ لو، رَف اسکن برداشت کرنی ہے یا رَف سسرال…؟‘‘ گو، نوبیاہتا بیٹی کو سمجھانے کایہ کوئی طریقہ نہ تھا، لیکن فوری طور پر وہ اُسے ایسے ہی ٹھنڈا کرسکتی تھیں۔
’’مَیں نے کہہ دیا ہے مما! مَیں نے نہیں رہنا، انس کے ساتھ۔ مَیں کوئی ہیلپر بھی نہیں رکھ سکتی۔ کھانا تو چلو آرڈر کردیتی ہوں، لیکن صفائی بہت مشکل کام ہے۔ ہمارا گھر تو کتنا صاف ستھرا ہوتا تھا اور ایک یہ انس کا فلیٹ… اتنا گندا، سڑا ہوا، بالکل انس کی طرح۔ اور مَیں پڑھوں کب؟ بس، نہیں رہنا اب مجھے انس کے ساتھ۔‘‘
اور… یہ ’’نہیں رہنا اب مجھے انس کے ساتھ۔‘‘ کی گردان اتنی بڑھی کہ چھے ماہ ہی میں حفصہ نے انس سے خلع لے لی۔ اور اب حفصہ کی ہاں میں ہاں ملانے والے، حفصہ کی بہن کا رشتہ بھی کسی کو تجویز نہیں کرتے۔ کہتے ہیں، ’’اِن لڑکیوں کو گھر بسانا نہیں آتا۔‘‘ مگر، حفصہ کو اِن تبصروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ اپنی چھوٹی بہن کو اکثر یہی مشورہ دیتی پائی جاتی ہے کہ ’’کوئی پیسے والا ملے، تو شادی کرنا، ورنہ میری طرح خوار ہو جاؤگی۔‘‘ اور بہن اپنی لائق فائق بہن کے مشورے غور سے سنتے ہنوز تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔