مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
راہِ حیات میں کبھی کبھار ایسے مہربان و مربّی بھی میسّر آجاتے ہیں کہ جن کے سبب زیست کا دھارا ہی بدل جاتا ہے۔ خوابیدہ صلاحیتیں بے دار ہوجاتی ہیں، اعتماد و متانت شخصیت کا حصّہ بن جاتے ہیں، ترقی و کام رانی کی منزلوں تک رسائی آسان معلوم ہونے لگتی ہے، خود پر اعتماد دوچند ہو جاتا ہے۔ قصّہ مختصر کہ ایسے مہربان کی رفاقت سے زندگی کے تمام تر کٹھن مراحل آسان ہوجاتے ہیں۔
مجھے بھی زمانۂ طالب علمی میں ایسے ہی مُشفق، راہ نما استاد کی صحبت میسّر آئی کہ جنھوں نے پھر میری زندگی اور شخصیت پر اَن مٹ نقوش ثبت کیے۔ مَیں آزاد کشمیر کے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میں داخل ہوا اور بی۔ اے آنرز میں پہنچا، تو ایک روز صبح کالج کی اسمبلی میں ڈائس پرایک بارعب و پروقار شخصیت کو دیکھا، جو اپنی مسحور کن آوز میں طلبا سے مخاطب تھے کہ ’’یہ اسمبلی آپ کے لیے ہے، آپ آئیں، اظہار ِخیال کریں، اشعار سنائیں، اپنی کوئی پسندیدہ غزل بغیر کسی جھجک اور گھبراہٹ کے طلبا و اساتذہ کے سامنے پیش کریں۔‘‘
مجھے شعر و شاعری سے شغف تھا، تھوڑی بہت تُک بندی بھی کرلیتا تھا، فوراً ڈائس پر پہنچا اور اُن سے کہا کہ ’’مَیں ایک غزل پیش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ میری اس جرأت پر وہ بہت خوش ہوئے اور مسکرا کر’’ارشاد‘‘کہہ کر مائیک میرے حوالے کردیا۔
یہ تھا، اُس پُربہار، باوقار شخصیت اور استاد، پروفیسر ارشد عادل راٹھور سے میرا پہلا تعارف۔ پروفیسر صاحب کوٹلی (آزاد کشمیر) سے تعلق رکھتے تھے اور اسّی کی دہائی سے گورنمنٹ کالج، میرپور میں فلسفہ پڑھارہے تھے۔ وہ پنجاب یونی ورسٹی سے ایم۔ اے فلسفہ، ایم۔ اے سیاسیات اور ایل۔ایل۔بی کے ڈگری یافتہ تھے۔ کچھ عرصہ وکالت کے پیشے سے بھی منسلک رہے، لیکن اس پیشے میں دل چسپی برقرار نہ رہی، تو پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے محکمہ تعلیم کالجز، آزاد کشمیر کا حصّہ بن گئے۔
وہ محض ایک روایتی استاد نہیں، بلکہ دوستوں کے دوست اور مجلسی شخصیت کے حامل تھے، اپنی منفرد اور قائدانہ صلاحیتوں سے طلبہ کو زیور ِتعلیم سے اس طرح آراستہ کیا کہ آج ان کے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ وہ مختلف مقابلہ جات میں شرکت کے لیے طلبا کو تیار کرتے، فنِ تقریر و تحریر سے آگاہی بخشتے۔
کالج میں منعقد ہونے والی بیش تر تقاریب کا انتظام و انصرام سنبھال کر اُنھیں اپنی مہارت و لگن سے کام یاب بناتے۔ کالج مجلّہ ’’سروش‘‘ کی مجلسِ ادارت کی رہنمائی کے ساتھ، خاکہ نگاری کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے، اپنے دوستوں اور رفقائے کار کے بہت دل چسپ خاکے تحریر کرتے، جو ’’کالج میگزین‘‘ کا حصّہ بنتے۔ انھیں طنزو مزاح پر مبنی مضامین لکھنے میں بھی خاص مہارت حاصل تھی، خصوصاً ان کا ایک مضمون ’’مرزا کی موٹرکار‘‘ خاصّے کی چیز ہے۔ جب کوئی کلاس نہ ہوتی، تو مَیں موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے کمرے میں چلا جاتا۔
وہ اپنے کام میں منہمک ہوتے، لیکن دیکھتے ہی ایک من موہنی مسکراہٹ سے استقبال کرتے، کوئی شرارتی جملہ کس دیتے اور پھر اپنی زندگی کے یادگار واقعات سنانے لگتے، جو ہمارے لیے سبق آموز ہوتے۔ طلبا کی ایک کثیر تعداد ان کےکمرے میں ہمہ وقت موجود رہتی۔ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں ہماری بھرپور رہنمائی کرتے، انٹرکالجیٹ مقابلوں میں شرکت کے لیے اپنے طالب علموں کو بھرپور تربیت کے بعد بھیجا کرتے۔
فروری 2010 ءکی بات ہے، شام کو ان کا فون آیا، کہنے لگے ’’انقلابی تیار رہو، صبح آپ کو دیگر پانچ طلبہ کے ساتھ اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام ہونے والے مقابلہ جات میں شرکت کے لیے ضلع باغ (آزاد کشمیر) جانا ہے۔‘‘ اگلے روز ہم باغ کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ تین روزہ رووراسکاؤٹ کیمپ میں ہونے والے مختلف مقابلوں میں ہم نے سات شیلڈ حاصل کیں اور ہمارا کالج، آزاد کشمیر بھر میں دوسرے نمبر پر رہا۔
میرے بی۔ اے پاس کرنے کے بعد ایک روز ایک تقریب میں کہنے لگے کہ ’’انقلابی کے کام یاب ہونے کی اتنی خوشی، اس کے والد صاحب کو نہ ہوئی ہوگی، جتنی مجھے ہوئی ہے۔‘‘ بی۔اے کے بعد مَیں نے اسی کالج میں ایم۔اے اردو میں داخلہ لے لیا۔ اس دوران بھی ان کی بھرپور رہنمائی حاصل رہی، اور مَیں نے جون 2012ء میں وزیرِاعلیٰ ہاؤس، لاہور میں منعقدہ ’’آل پاکستان ڈبیٹ کمپیٹیشن میں آزاد کشمیر کی نمائندگی کرتے ہوئے اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اُس وقت کے وزیر ِاعلیٰ پنجاب، میاں محمد شہباز شریف نےمجھے دو لاکھ روپے کے چیک اور لیپ ٹاپ سے نوازا۔
اس کام یابی کی خبرسب سے پہلے اپنے استاد، راٹھور صاحب کو فون پرسنائی، تو انہوں نے بے پناہ مسّرت کا اظہار کیا۔ جب میرا بطور وزیٹنگ لیکچرار، اردو گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج افضل پور میں تقرر ہوا، تو کہنے لگے کہ ’’انقلابی! مَیں سمجھتا ہوں کہ میرا بیٹا، ولید راٹھور اس مقام پر پہنچ گیا ہے۔‘‘
ملازمت اور زندگی کے دیگر معاملات میں مصروفیت کے سبب اُن سے ملاقات کا سلسلہ موقوف ہوگیا، تاہم گاہے بگاہے میں فون پر رابطہ کرلیا کرتا۔ ایک روز خبر ملی کہ پروفیسر صاحب علیل ہوگئے ہیں۔ عیادت کے لیے گھرگیا، توان کی حالت دیکھ کربہت تکلیف ہوئی، وہ خاصے نحیف ہوچکے تھے۔
بہرکیف، ان کا علاج ہوتا رہا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور ستمبر 2016ء کی ایک اُداس شام اس دارِفانی کو چھوڑ کر خالق ِحقیقی سے جا ملے۔ پروفیسر صاحب کو دنیا سے رخصت ہوئے آٹھ برس بیت چکے، لیکن کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ اُن کی یاد نے درِدل پر دستک نہ دی ہو۔ اب بھی راہ ِحیات کی مسافت طے کرتے ہوئے قدم قدم پر وہ یاد آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے مرقد پر لاکھوں، کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، آمین۔ (پروفیسر راجا محمد ذوالقرنین انقلابی، میرپور، آزاد کشمیر)