کراچی میں پانی کی کمیابی پرانا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کیلئے کئی منصوبے بروئے کار لائے گئے مگر شہری آبادی میں تیز رفتاری سے ہونے والے اضافے نے صورت حال کوتلپٹ کردیا۔ وقتاً فوقتاً بڑی پائپ لائنیں پھٹنے سے پیدا ہوتی پانی کی قلت شہر کے بڑے حصے، بالخصوص کچی آبادی کہلانے والے علاقوں کیلئے زیادہ تکلیف دہ ہوجاتی ہے اور انہیں ٹینکروں یا گدھا گاڑی پر ٹنکی رکھ کر پانی فروخت کرنے والوں سے پانی حاصل کرنے کیلئے منہ مانگی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس منظر نامے میں پیر کے روز وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے نوڈیرو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ ’’کراچی میں آدھی آبادی کیلئے پانی موجود ہے‘‘ تو اس میں آدھی آبادی کی محرومی کے اعتراف کے ساتھ یہ اظہار بھی شامل ہے کہ صوبائی حکومت اس باب میں کاوشیں کررہی ہے۔ انکے بیان سے پانی کی فراہمی کے منصوبے ’’کے فور‘‘ کی چند ماہ میں تکمیل کا اشارہ بھی ملتا ہے۔ تاہم وثوق سے یہ کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ19برس کی طویل مدت میں مکمل ہونے والے اس منصوبے سے شہریوں کو نئی ضروریات کے مطابق پانی دستیاب ہوسکے گا۔ اس کی وجوہ میں کسی منصوبہ بندی کے بغیر شہری آبادی میں غیرمعمولی اضافہ اور کچی آبادیوں کا پھیلائو شامل ہے۔ جماعت اسلامی کراچی نے پانی کی کمیابی پر احتجاج کا جو سلسلہ شروع کیا، اس میں یہ موقف نمایاں ہے کہ پانی نلکوں سے دیا جائے، ٹینکر کے ذریعے نہ بیچا جائے۔ اس میں ہائیڈرنٹ مافیا، ٹینکر مافیا سمیت کئی مافیائوں کی بیخ کنی کا مطالبہ بھی آجاتا ہے۔ اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔ شہر سے باہر نئی آبادیوں کی منصوبہ بندی سمیت پانی کی فراہمی کی تدابیر مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ آبی صورتحال پر قابو پانے کی حکومت سندھ کی ہمہ جہت کاوشیں جلد بارآور نتائج دیں گی اور کراچی کے لوگوں کو پانی کی قلت سمیت کئی مشکلات سے نجات ملے گی۔