زندگی گمان اور تاثر پر بسر ہوتی ہے، اِدراک بھی فریب کا دوسرا رُخ ہے، آپ کو وہی نظر آتا ہے جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں Perceptionیعنی تاثر یا گمان حقیقت سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ آپ نے سردیوں میں دھند کی جادوگری تو دیکھی ہو گی۔ گاڑی کی ونڈ اسکرین صاف کرنے کے باوجود کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ Perceptionبھی اس دھند کی طرح چھا جاتی ہے تو حقیقت دکھائی نہیں دیتی۔ دانشورانِ عصر نشاندہی فرماتے ہیں کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی اور بدانتظامی ہے، بعض ناصح سمجھاتے ہیں کہ معیشت سب سے بڑی حقیقت ہے، لوگ خوشحال ہو جائیں گے تو باقی سب مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے، کچھ مجتہد بتاتے ہیں کہ سول اور عسکری بالادستی کی لڑائی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے، اسی طرح تعلیمی نظام کو درست کرنے کی بات ہوتی ہے، سیاسی عدم استحکام کو رونا رویا جاتا ہے۔ یقیناً یہ سب معاملات توجہ طلب ہیں مگر میری دانست میں سب سے بڑی بیماری یہ تصور، خیال یا واہمہ ہے جسے انگریزی زبان میں Perceptionکہا جاتا ہے اور اسے تلبیس اطلاعات کے اس دور میں باقاعدہ بیانیہ بنا کر عام کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اشرافیہ میں تو یہ تاثر برسہا برس سے موجود تھا کہ پاکستان دولت کمانے اور حکومت کرنے کیلئے تو جنت ہے مگر یہ ملک رہنے کے قابل نہیں۔ اسی خیال کے تحت یہ لوگ نہ صرف اپنی ضرورت کی بیشتر اشیاء بیرون ملک سے منگوایا کرتے تھے بلکہ بچوں کو بھی ڈگریاں لینے کیلئے پاکستان سے باہر معروف تعلیمی اداروں میں بھجوایا جاتا تھا۔ جب یہ امیر زادے واپس آتے تو یہاں کاروبار کرتے، کسی بڑے عہدے پر متمکن ہوتے یا پھر اپنے آبائی حلقے سے الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے اور شام کو چسکی لگاتے ہوئے کہتے، یار اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ مگر پریشانی کی بات یہ ہے کہ اشرافیہ کو لاحق یہ مرض اب نہ صرف متوسط طبقے اور عام آدمی تک پہنچ گیا ہے بلکہ نہایت تیزی سے کسی وبا کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کے سیٹھ تو مایوس ہیں ہی مگر اب اس ملک کے سفید پوش افراد میں بھی یہ رائے بہت پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ یہ ملک ایک بہت بڑا عقوبت خانہ ہے جس سے فرار کا کوئی موقع میسر آئے تو کشتیاں جلا کر نکل جانا چاہئے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران معاشی اعشاریئے منفی سے مثبت ہو گئے۔ اسٹاک مارکیٹ کی اڑان بہت اونچی ہے، اسٹیٹ بنک نے شرح سود 23فیصد سے گھٹا کر 13فیصد کر دی ہے، آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج ملنے کے بعد غیر یقینی کی صورتحال نہیں رہی، پاکستان کی کرنسی مستحکم ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم نہیں ہو رہی، یورپی یونین نے پاکستان کو چار سال بعد ہائی رسک ممالک کی فہرست سے نکال دیا، پی آئی اے کے یورپ کے روٹ بحال کر دیئے گئے، پاکستان میں کرکٹ کا ورلڈ کپ ہونے جا رہا ہے مگر ان سب اچھی خبروں کے باجود لوگ مایوس ہیں، نااُمیدی بڑھتی جا رہی ہے، کیوں؟ اس لیے کہ تاثر، حقیقت کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ آپ پاسپورٹ دفاتر جا کر دیکھیں، لوگ ارجنٹ فیس ادا کرنے کے باوجود مقررہ مدت میں پاسپورٹ حاصل نہیں کرپا رہے اور سفارشیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ بالعموم نوجوانوں میں ملک سے باہر جانے کی تگ و دو زیادہ ہوا کرتی تھی اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اُدھیڑ عمر کے لوگ اپنی مٹی سے جڑے رہنے پر اصرار کرتے ہیں مگر آج آپ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جانے والے افراد سے بات کرکے دیکھ لیں، وہ بھی بیرون ملک کام ڈھونڈنے کی دوڑ دھوپ میں مصروف ہیں۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ میں برین ڈرین کی بات کر رہا ہوں یعنی اس بات پر کڑھن کا اظہار مقصود ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان ملک سے باہر کیوں جارہے ہیں تو تصیح فرمالیں، میرا مقدمہ کچھ اور ہے۔ اس ملک کے حکمران طبقے کے پاس ہمیشہ دہری شہریت ہوتی ہے، ڈاکٹر اور انجینئر آگے بڑھنے کی جستجو میں بیرون ملک ترقی کے مواقع تلاش کرتے ہیں، ہنر مند افراد بھی بچوں کے مستقبل کی خاطر پردیسی ہو جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے غیر ملکی زرمبادلہ پاکستان آتا ہے۔ جب سمندر پار پاکستانیوں کی زندگیاں بدلتی ہیں، گائوں میں کچے مکان کی جگہ شاندار کوٹھی تعمیر ہو جاتی ہے، چمچماتی گاڑیاں شان وشوکت بڑھاتی ہیں تو گائوں کے کچھ نوجوان غیر قانونی طریقے سے ڈنکی لگا کر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رجحان بھی بہت پرانا ہے، کم وبیش ہر سال ہی پاکستانیوں کی کوئی نہ کوئی کشتی سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔ لیکن معاملہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر اور تشویشناک ہے۔ اب تو یوں لگتا ہے جیسے ہر ایک شخص دل میں طوفاں چھپائے بیٹھا ہے۔ ایک صاحب جن کی عمر غالباً 60سال سے زیادہ ہے، انہوں نے بیرون ملک جانے پر اصرار کیا تو میں نے پوچھا، کیا کریں گے باہر جا کر، کہنے لگے کم ازکم عافیت سے مر تو سکوں گا۔ وہ لوگ جو مواقع ملنے کے باوجود کہا کرتے تھے کہ ہمارا جینا اور مرنا پاکستان میں ہے، اب ان کا بھی اس اجڑے دیار میں دل نہیں لگتا۔ جو خود ہجرت نہیں کر سکتے، وہ ثواب کی نیت سے دوسروں کو کسی اور ملک جا کر بسنے کا مشورہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا خوف، وسوسہ اور بے چینی اندیشہ ہائے دور دراز پر مبنی ہو سکتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ وہ اسPerception پر یقین رکھتے ہیں اور حقیقت کو مفروضہ خیال کرتے ہیں۔ اگر حبیب جالب کے الفاظ مستعار لوں تو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو منزل کھو رہے ہو
یہ سب گماں اور یقیں کا بکھیڑا ہے۔ تصور اور حقیقت کی کشمکش ہے۔ تاثر اور اِدراک کی لڑائی ہے۔ بہت بڑی خلیج حائل ہو گئی ہے۔ جب تک یہ فاصلے کم نہیں ہوتے، دوریاں ختم نہیں ہوتیں، لوگوں کو یہ باور نہیں کروایا جاتا کہ یہ مٹی بہت زرخیز ہے، حالات برے ضرور ہیں لیکن صورتحال اتنی گئی گزری بھی نہیں ہے، تب تک کوئی کوشش بار آور ثابت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ لوگوں کے ذہنوں پر ایک مخصوص گمان اور تاثر کی دھند چھائی ہے اور تاحد نگاہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔