• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت آنکھوں میں آنسو لیے لاڑکانہ کی جانب محو سفر ہوں جہاں گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے17ویں یومِ شہادت کی مناسبت سے سالانہ تقریبات کی تیاریوں کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، ہر سال کی طرح 27دسمبر کاالمناک دن پورے پاکستان کو ایک مرتبہ پھررنج و غم میں مبتلا کرنے آگیا ہے، یہ ہماری ملکی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہےجب جمہوریت کے علمبرداروں کے قافلے کی دلیر و دبنگ سالار محترمہ بےنظیر بھٹو کو دہشت گردوں نے اس وقت بہیمانہ انداز میں نشانہ بنایا جب وہ راولپنڈی میں ایک عظیم الشان عوامی جلسے سے خطاب کے بعدعوام کے ساتھ اظہارِیکجہتی کررہی تھیں،اس دن جڑواں شہروں سمیت گردونواح میں بسنے والےان گنت لوگ محترمہ بے نظیر بھٹو کا تاریخی خطاب سننے لیاقت باغ میں موجود تھے، جتنے لوگ تاریخی جلسے میںشریک تھے اس سے کہیں زیادہ ٹی وی اسکرین پر نظریں جمائے محترمہ کا ولولہ انگیز خطاب سننے میں محو تھے، جامنی ملبوس زیب تن کیے دخترمشرق اورعالم اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم کے اعزازکی حامل محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے عظیم والد قائد عوام ذولفقارعلی بھٹوکو خراجِ تحسین پیش کررہی تھیں اور جلسے میں شریک لاکھوں لوگ جیئے بھٹو کے فلک شگاف نعرے بلند کررہے تھے، جب وہ جلسے سے خطاب کے بعد پنڈال سے روانہ ہوئیں تو عوام کا ٹھاٹھیںمارتا سمندر اپنی عظیم لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے سڑکوں پر اُمنڈ آیا تھا، یہی وہ المناک لمحات تھے جب دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ کردیا۔بزدل دہشت گردوں نے محترمہ بے نظیر کی صورت میں چاروں صوبوں کی زنجیر کو بھی توڑنے کی جسارت کی اور پھر آناََفاناََ پاکستان کے کونے کونے سےبھرپور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب محترمہ کو شہید کیا گیا تو پاکستان ٹوٹنے کی نہج پر پہنچ گیا تھا، ایسے حالات میں شہید رانی کے شوہر آصف علی زرداری نے آگے بڑھ کر غمزدہ عوام کو حوصلہ دیا اوراپنا قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے’’ پاکستان کھپے ‘‘کا نعرہ بلند کیا، زرداری صاحب نے بپھرے ہوئے لوگوں کو باور کرایا کہ بہترین انتقام جمہوریت ہے، انہوں نے آمریت کے شکنجے میں جکڑے پاکستان کو پھر سےجمہوریت کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے مفاہمت کی سیاست کی ضرورت پر زور دیا اورپاکستان کی بقاء کی خاطر اپنے ماضی کے تمام سیاسی مخالفین کو گلے لگانے کامشکل فیصلہ کیا، زرداری صاحب کی اعلیٰ ظرفی اور دوراندیشی کی بدولت پاکستان پیپلز پارٹی طاقت کے سرچشمے عوام کے ووٹوں کی بدولت آمرانہ قوتوں کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہوگئی اورپھر بہت جلد ساری دنیا نے اعتراف کرلیا کہ پا کستان میں طویل آمرانہ دور کے اختتام اور جمہوریت کی بحالی کا کریڈٹ محترمہ شہید رانی کی لازوال قربانی کو جاتا ہے۔ آج جب میں یہ بات کرتا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جسکے کارکنوں اور قائدین نے پاکستان کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں اور اپنے خون سےگلستانِ جمہوریت کو سیراب کیا ہےتو مجھے کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، تاہم میں محترمہ شہید رانی کے یومِ شہادت کے موقع پرایک مرتبہ پھر اپنا یہ اصولی موقف دہرانا چاہتا ہوں کہ اگر قائداعظم نے پاکستان کو بنایا تو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو بچایا۔ اس حوالے سےپانچ اپریل 2018ء کو قائدِ عوام کی سالانہ برسی کے موقع پر میرا اخباری کالم اس وقت شائع ہوا جب میں مسلم لیگ (ن)کا حصہ تھا،میں نےبھٹو صاحب کو کرشماتی لیڈر قرار دیتے ہوئے اپنےخیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ بھٹو عوام کی خاطر اپنی جان دیکر امر ہوگیا تو بھٹو کی بہادر بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے باپ کے مشن کو آگے بڑھایا،میری نظر میں بھٹو ایک نظریے کا نام ہے اور نظریہ کبھی مرتا نہیں۔بعد ازاں عمران خان کے دورِ اقتدار میں جب محترمہ شہید رانی کے جمہوری مشن پر عمل پیرا انکے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا تو میں نے پی ٹی آئی میں رہتے ہوئے اپنے ہفتہ وار کالم بعنوان ایک اور لانگ مارچ...! بتاریخ 10مارچ 2022ءمیں اعتراف کیاکہ مجھے متعدد عوامی مظاہروں کا مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا ہے لیکن میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بلاول بھٹو کا حالیہ پاور شو نہایت متاثرکُن ہے۔ جب میں پیپلز پارٹی کا حصہ نہیں تھا تب بھی میں نے حقیقت پسندانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا سیاسی آئیڈیل ذوالفقار علی بھٹوکو بنایا تھا، آج مجھے فخر ہے کہ میں عوام کی خدمت کا جذبہ دل میں لئے سیاست کے کٹھن سفر میں پیپلز پارٹی کی صورت میں ایک ایسے کاروانِ جمہوریت کا حصہ بننے میں کامیاب ہوگیا ہوں جس نے قدم قدم پر پاکستان کی بقاء و سلامتی اور جمہوریت کے تسلسل کیلئے بے دریغ قربانیاں دی ہیں۔بلاشبہ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کا ایک عظیم اثاثہ تھیں، اپنی ذات میں ایک مکمل ادارے کا درجہ رکھتی تھیں اورپھر ایسی بہترین شخصیت کی آغوش میں پرورش پانے والے سیاسی بصیرت، دوراندیشی اور قائدانہ صلاحیتوں کے مالک کیسے نہ ہوں؟یہی وجہ ہے کہ آج اگر ایوانِ صدر میں جیے بھٹو کے نعرے گونج رہے ہیں تو چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری پارلیمان میں جمہوریت کے متوالے جیالوں کے دِلوں کی دھڑکن بن چکے ہیں، چند دن قبل ایک تقریب میں مجھے محترمہ آصفہ بھٹو زرداری سے ملاقات کا اتفاق ہوا تو مجھےانکی صورت میں انکی عظیم والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی واضح جھلک نظر آئی۔ آج لاڑکانہ کی جانب رواں دواں جیالوں کے قافلوں کا جوش و خروش دیکھ کر وثوق سے دعویٰ کرسکتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کا بسیرا لوگوں کے دلوں میں ہے۔ آج اگرچہ شہیدرانی کی کمی ہم سب کو محسوس ہوتی ہے لیکن میرے لیے یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ محترمہ کا مشن آگے بڑھانے کیلئے صدر پاکستان آصف علی زرداری، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، عکسِ بے نظیرآصفہ بھٹو زرداری اور محترمہ فریال تالپور ہمارے درمیان موجود ہیں۔ زندہ ہے بی بی زندہ ہے ۔۔۔!

تازہ ترین