(گزشتہ سے پیوستہ )
اس زمانے میں ایک اخبار میں ہر اتوار کو ریاض بٹالوی کا رنگین فیچر شائع ہوتا تھا جو بہت پسند کیا جاتا تھا اسی طرز کا فیچر میں بھی لکھا کرتا تھا مگر؎
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
چنانچہ بٹالوی کے مقابلے میں میرے فیچر کی کوئی حیثیت نہیں تھی ایک دن میرے ایک کولیگ نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ تمہیں 323روپے ماہوار ملتے ہیں تم ایک کام کرو ۔میں نے کہا بتائو؟ بولا تم ہر اتوار کو اپنے فیچر کی چار کاپیاں انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے فلاں شعبے میں جمع کرا دیا کرووہ تمہیں ایک فیچر کا سو روپیہ ادا کر دیا کریں گے اور یوں تنخواہ سے زیاہ پیسے تمہیں مفت میں مل جایا کریں گے۔ میں نے پوچھا وہ مجھے یہ ادائیگی کیوں کریں گے؟ بولا ان کے پاس بہت فنڈز ہوتے ہیں وہ صحافت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا اس کے بدلے میں مجھے ان کے لئے کیا کرنا پڑے گا ؟بولا کچھ بھی نہیں میں نے جواب دیا برادر کوئی لنچ مفت نہیں ہوتا تاہم مشورہ دینے کا بہت شکریہ، اس کی اگلی بات سن کر میں حیران ہوگیا اس نے کہا تم نہ لو فلاں فلاں سینئر لوگ ہر ماہ یہ رقم وصول کرتے ہیں جو جتنا سینئر ہوتا ہے اسے اس کی خدمت اس سے کہیں زیادہ کی جاتی ہے پھر اس نے مجھے ایک سینئر صحافی کے بارے میں بتایا کہ اس نے انفارمیشن والوں سے گزارش کی ہےکہ وہ عمرہ پر جانا چاہتے ہیں چنانچہ انہیں دو ماہ کی پیشگی ادائیگی کر دی جائے۔ اب میں اسے کیا بتاتاکہ مجھ سے تو میری حق حلال کی کمائی میں سے بھی ہر ماہ کچھ رقم بچ جاتی ہے ۔حرام کی کمائی سے میں اپنی حلال کی کمائی کو ہی داغدار کیوں کروں!
دراصل اس دور میں معیار زندگی کی دوڑ نہیں لگی ہوئی تھی او ریوں ضرورت کی چیزیں ہر ایک کے دسترس میں تھیں۔ شادی کے ایک ہفتے بعد میں لاہور کے اکلوتے چائنز ریستوران کیفے میں اہلیہ کے ساتھ کھانے کے لئے گیا یہ مال روڈ پر فیروز سنز کے برابر میں واقع تھا ہم نے سنگل ڈش کا آرڈر دیا جو بل آیا وہ مبلغ دس روپے تھا دو روپے میں نے ٹپ کے طور پر ادا کئے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یاد آئی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ لبرٹی مارکیٹ میں شاپنگ کے لئے گیا ایک دکان سے نکلے تو اہلیہ نے چائے کی فرمائش کی اس کے ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ جہاں ہم کھڑے ہیں وہاں ایک ریستوران کا بورڈ لگا ہوا ہے اور اس ساتھ ایک تیر نشاندہی کر رہا ہے کہ ریستوران برلب سڑک نہیں بلکہ نیچے کی طرف ہے ،مجھے یہ ریستوران بہت عجیب سا لگا چاروں طرف گاہکوں کے بیٹھنے کے لئے باکس بنے ہوئے تھے اور باہر صرف ایک شخص کائونٹر پر بیٹھا تھا باکس کا ریلنگ دروازہ بڑی مشکل سے کھلتا اور بند ہوتا تھا مجھے یہ جگہ مشکوک سی لگی بہرحال میں نے دو چائے کا آرڈر دیا بل آیا تو سات روپے کا تھا میں نے بل دیکھ کر اپنی اہلیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ویٹر سے کہا ’’یہ میری بیوی ہے ‘‘ یہ سن کر اس نے کہا ’’پھر تین روپے دے دیں !‘‘
میں نے آج لکھنا تو کچھ اور تھا مگر قلم کا رخ خودبخود لاہور کے بعض دلچسپ کرداروں کی طرف ہو گیا ہے۔ اس زمانے میں صحافی نما ایک نوجوان صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا ڈنر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کرتا تھا اور کوئی ادائیگی نہیں کرتا تھا ۔اشفاق احمد کے بیٹے کی شادی ہوئی تو وہاں مہمانوں میں شہر کی کریم کے درمیان موصوف ہی بیٹھے نظر آ ٓئے۔ میرے اور امجد کے ساتھ ریڈیو پاکستان کی ایک بہت اہم اور شوخئی طبع سے معمور ایک شخصیت عتیق اللہ بھی تشریف فرما تھیں، جب ہماری نظر اس پر پڑی تو ہم تینوں کی یہ رائے تھی کہ یہ بن بلائے یہاں موجود ہے۔عتیق کی شوخئی طبع جاگ اٹھی انہوں نے ایک رقعہ لکھا’’ محترم فلاں صاحب مجھے اشفاق صاحب نے ہدایت کی ہے کہ میں آپ کو فوراً یہاںسے نکال دوں کیونکہ انہوں نے آپ کو اس محفل میں مدعو نہیں کیا تھا‘‘ یہاں تک تو خیر ٹھیک تھا مگر آخری لائن تھی ’’خیر اندیش عطاءالحق قاسمی ‘‘ اور یہ رقعہ میرے ہاتھ لگنے سے پہلے ان صاحب تک پہنچ چکا تھا، اب ہم تینوں کی نظریں اس پر تھیں اس نے رقعہ پڑھا اور پڑھتے ہی باہر کو دوڑ لگا دی ۔ میں ان صاحب کا شمار یک طرفہ بے تکلفانِ شہر میں کیا کرتا تھا۔ میرا ایک ایس ایس پی دوست علائوالدین نام کا تھا، اس نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ مال روڈ پر کوئی ہنگامہ برپا تھا اور وہ سخت ٹینشن کے عالم میں ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے کسی نے باآواز بلند اس کا نک نیم لیتے ہوئے پکارا ’’اوئے لاوے‘‘ دیکھا تو یہ وہی خبیث تھا جس سے میں زندگی میں صرف ایک بار ملا تھا۔عارف نظامی مرحوم نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ ایک بار وہ اپنے آفس میں داخل ہوئے تو دیکھا یہ صاحب مین چیئر پر بیٹھے ہیں مجھے دیکھ کر سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کرکے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا اور ساتھ ہی بیل دی ،نائب قاصد آیا تو اسے کہا عارف صاحب کے لئے چائے لائو۔ (جاری ہے )