السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ہائے رے سردی، ہائے رے سردی…
جب تک میراخط شایع ہوگا، یقیناً سالِ نو کا آغاز ہو چُکا ہوگا۔ تو آپ کو میری طرف سے’’نیا سال مبارک ہو۔‘‘ موسمِ سرما کی کرم فرمائیاں جاری و ساری ہیں۔ ہائے رے سردی، ہائے رے سردی، سارے بدن میں برف سی بَھردی۔ اُف! گرما گرم چائے، کافی، سوپ یخنی، میوہ جات سے لُطف اندوز ہونے کے دن آگئے۔ ویسے سال کتنی جلدی گزرجاتا ہے ناں، حالاں کہ ہر طرف ظلم وستم، منہگائی کی مارا ماری ہے، پھر بھی وقت کا پہیہ برق رفتاری ہی سے گھوم رہا ہے۔
بقول چچا غالب ؎ کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ… صُبح کرنا شام کا، لانا ہے، جوئے شِیر کا۔ شاید وقت کا پہیہ بھی ’’آن لائن‘‘ ہوگیا ہے۔ پاکستان تو کیا، دنیا بھر ہی سےامن وسُکون اور خیر کی خوش کن آوازوں کو کان ترس گئے ہیں۔ شُکر ہے، اِک یہ جریدہ تاحال اپنی پرانی روش، رِیتوں روایتوں کو برقرار رکھنے میں کام یاب ہے۔ اس بار’’مسند والی چٹھی‘‘ کےجواب میں پڑھا کہ اگر اسماء چٹھی نہ لکھتی، تو آپ اس صفحے کو بائےبائے کررہی تھیں۔
یہ ظلم نہ کریں بھئی۔ اِک اسماء ہی کیوں، اور بھی تو اتنے چاہنے والے ہیں۔ آپ اپنی ہم نام کو بھول گئیں۔ خیر، جریدے کے من پسند صفحے’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے دینی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے آگے کی طرف پیش قدمی کی، تو منور مرزا سے ملاقات ہوئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح سنجیدہ ترین موضوع پر بہترین تجزیئےکے ساتھ موجود تھے۔
’’فیچر‘‘ میں رئوف ظفر نے پاکستانی قوم یعنی ہمیں آئینہ دکھایا، تو بس چُلّو بَھر پانی میں ڈوب مرنےکودل کیا، لیکن یہ سوچ کر رُک گئے کہ اتنا پانی بھی کہاں سے لائیں۔ ’’اسٹائل‘‘ بزم کا رائٹ اَپ، تو واللہ ہم خواتین کو تھوڑی دیر کے لیے کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے، کیا شاہ کار تحریر لکھتی ہیں آپ۔ ’’ڈائجسٹ‘‘کا معیار بھی بلند سے بلند تر ہورہا ہے۔ اور’’آپ کاصفحہ‘‘ کی سب رونقیں بھی آپ ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ اللہ اِنھیں قائم و دائم رکھے آمین۔ (نرجس مختار، خیرپورمیرس، سندھ)
ج:ارے، آپ کو بھلا کیسے بھول سکتے ہیں؟؟ بس، یوں ہی برسوں سے ایک جیسا کام کرتے کرتے کبھی جی اچاٹ بھی تو ہوجاتا ہے۔ اور ہاں،آپ جو ’’ہائے رے سردی، ہائے رے سردی‘‘ گنگنا رہی ہیں، تو ہم کراچی والے تو بس ایسی سردی کو ترس ہی گئے ہیں۔ اِس سال تو یہاں گرم ترین نومبر، دسمبر کا ریکارڈ ہی ٹوٹ گیا۔ باقی آپ کی ساری باتیں بالکل درست ہیں۔ اچھا ہویابُرا،وقت کا کام گزرنا ہے، تو وہ بہرحال گزر ہی جاتا ہے۔
بہت خُوب صُورت بُنا
’’حالات و واقعات‘‘ میں اس بار بھی منور مرزا نے قابلِ تعریف مضمون تحریر کیا، پڑھ کر نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، بہت لُطف بھی آتا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں بھی ایک بہت شان دار افسانہ پڑھنے کو ملا۔ واقعی، روبینہ یوسف نے ’’اکیسواں سوئیٹر‘‘ بہت ہی خُوب صُورت انداز سے بُنا۔
مناہ جاوید کی دُعا بھی اچھی لگی۔ پرنس افضل شاہین کی باتیں تو دل میں اُترگئیں۔ اور ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں محمّد کاشف کی ای میل کیا تھی، اُنہوں نے تو ایک پورا مضمون ہی لکھ ڈالا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: جی واقعی، صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا معیار خاصا بہترہوگیا ہے۔ اب ڈاک سے کافی معیاری افسانے موصول ہورہے ہیں۔ اور کچھ ہم نے بھی میرٹ تھوڑا سخت کر دیا ہے۔ پہلے جو کچھ کم معیاری تحریریں بھی صرف اِس خیال سے لگا دی جاتی تھیں کہ نوآموز کی حوصلہ افزائی ہوجائے گی، اب فوری ری جیکٹ کردی جاتی ہیں کہ اِس طرح تو پھر واقعتاً اچھے لکھنے والوں کے ساتھ مسلسل ناانصافی ہو رہی ہے۔
ہر بار ناقابلِ اشاعت
اُمید ہے، مزاج بخیر ہوں گے۔ میرے والد صاحب شاعر تھے۔2001 ء میں اُن کا انتقال ہوگیا۔ اُن کی وفات کے چند سال بعد مجھے بھی شعرو شاعری کا کچھ شوق ہوا۔ اور پھر اتفاقاً 2022 ء میں میری نظر میں جنگ، سنڈے میگزین آیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ دیکھا توخوشی ہوئی کہ اب مَیں بھی اپنا کلام جریدے کو بھیج سکوں گا۔
سو، 2023ء میں وقفے وقفے سے اپنی تین نگارشات ارسال کیں کہ آپ کے مستند شاعر صاحب کچھ نوک پلک سنوار دیں گے، لیکن تینوں بار ہی نام ناقابلِ اشاعت میں آگیا، چلو خیر۔ اُس کے بعد مرحوم والد صاحب کی بھی دو عدد نعتیں ارسال کیں، تو وہ بھی ناقابلِ اشاعت ٹھہریں۔
مطلب نئے لکھاری تو کیا، آپ تو باقاعدہ شاعروں کا کلام بھی شائع نہیں کرتے۔ یقین ہوگیا ہے کہ یہاں صرف عزیزواقارب، سفارشی لوگوں یا جو آپ کو تحریروں کی اشاعت کا معاوضہ بھیجتے ہیں، صرف ان ہی کی نگارشات شائع کی جاتی ہیں۔ ہی ہی ہی۔ (طاہر گرامی، نواب شاہ)
ج: یہ قطعاً کوئی ’’ہی ہی ہی…‘‘کرنے والی بات نہیں، انتہائی واہیات بات ہے کہ آپ ہم پر باقاعدہ الزام لگارہے ہیں۔ ہم آپ کو چیلنج کرتے ہیں کہ آپ ہماری 25 سالہ سروس میں، ایسا ایک بھی کیس ثابت کردیں ناں تو ہم آپ کے لیے یہ سیٹ خالی کر دیں گے۔
بارہا بتایا ہے کہ یہ شعر و شاعری ہما شُما کا کام نہیں۔ شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ نثرکی پھر بھی نوک پلک سنواری جا سکتی ہے، لیکن شاعری اگر بےوزن ہو تو بیک جنبشِ قلم مسترد ہوجاتی ہے۔ اور یہ ہمارا کام بھی نہیں، اختر سعیدی جیسے مستند شاعر کو وصول پانے والا تمام ترکلام دکھایا جاتا ہے، جسے وہ اوکے کر دیں، باری آنے پر شایع ہوجاتا ہے، بقیہ ناقابلِ اشاعت کی فہرست کا حصّہ بن جاتا ہے۔ تواب آپ اپنی ایک غلط فہمی دُور فرما لیں کہ نہ صرف آپ بلکہ آپ کے مرحوم والد بھی کم ازکم شاعر ہرگز نہیں تھے۔
بلوچستان کے مسائل کی شان دار عکّاسی
گزشتہ شماروں کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سلسلے میں ڈاکٹرحافظ محمّد ثانی نے ’’مسجد‘‘ کی اہمیت خُوب خُوب اجاگر کی۔ ’’خود نوشت‘‘ میں ذوالفقار احمد چیمہ بڑے اچھے انداز میں اپنے حالاتِ زندگی بیان کر رہے ہیں، ویسے اگر ساتھ کچھ اور یادگار تصاویر بھی شایع کی جائیں، تو تحریر کا لُطف دوبالا ہو جائے۔ وحید زہیر بلوچستان کے مسائل کی شان دارعکّاسی کرتے ہیں۔
چلیں، کوئی تو ہے، جو اِس صوبے کا دُکھ دل سے محسوس کرتا ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کے بے مثال تجزیات کا تو کیا ہی کہنا۔’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے معلوماتی مضامین بھی بہت ہی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ متفرق، پیارا گھر ڈائجسٹ اور ناقابلِ فراموش سلسلے ہمیشہ ہی پسند آتے ہیں۔ اور اب آیئے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، اس شمارےمیں ہمارا خط شامل نہیں تھا۔ امید ہے، اگلے میں ضرور شامل ہوگا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)
فی امان اللہ
؎ اِک ڈور ہی ہے، دن کی، مہینوں کی، سال کی… اِس میں کہیں پہ ہم بھی پروئے ہوئے سے ہیں۔ اب یہ اللہ ہی جانے، کب تک پروئے ہوئے سے ہیں۔ بہرکیف، الحمدُللہ، سال 2024 ء تو بخیر تمام ہوا اور دُعا یہی ہے کہ پروردگار 2025 ء کی ڈور میں بھی امن و آشتی، خُوشی و مسرت، خیر و بھلائی ہی کے دن، مہینے پروتا رہے۔ سالِ رفتہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے کُل 52 ایڈیشن تیار ہوئے۔
یعنی سال کے 365 ایام میں کُل جتنے اتوارآئے، اُتنے ہی جرائد بھی مارکیٹ میں آئے اور پرنٹ میڈیا کے مسلسل رُوبہ زوال ہونے کے تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ ایک معرکہ سرکرنے ہی کے مترادف ہے۔
خیر، حسبِ روایت ہم ایک بار پھر سال بھر کے شماروں میں شامل ہر دل عزیز صفحے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی سند یافتہ چٹھیوں کے ایک سرسری جائزے اور ’’سال کی بہترین چٹھی‘‘ کے اعزاز کے حق دار کے نام کے اعلان کے ساتھ حاضرِ خدمت ہیں۔
ہمارا ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ ٭7جنوری 2024ء کو شائع ہوا اور اُس میں ’’چٹھیوں کی چٹھی‘‘ کی حامل ٹھہریں، سیال کوٹ کی شائستہ اظہر۔ دوسرے شمارے ٭14جنوری کے ایڈیشن میں ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز جھڈو، میرپورخاص کے ضیاء الحق قائم خانی نے سمیٹا۔ ٭ 21 جنوری کو شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپور خاص سے مسند نشیں ٹھہرے اور ٭28جنوری کو ہمارے کراچی کے بزرگ قاری و لکھاری پروفیسر سید منصور علی خان کرسیٔ صدارت پر فائز ہوئے۔فروری کا پہلا شمارہ ٭ 4 فروری کو شائع ہوا اور خیرپور میرس کی بہت پیاری ڈاکٹرنی صاحبہ، ڈاکٹر تبسّم سلیم چوکھٹے میں مسند افروز ہوئیں۔
٭11 فروری کو شہزادہ بشیر دوسری بار مسند نشیں ہوگئے، تو٭ 18 فروری کو انہوں نے ہیٹ ٹرک بھی کرڈالی اور٭ 25 فروری کی بزم میں کوٹ غلام محمّد کے اشوک کمار کولھی نے خُود کو بہترین نامہ نگار منوایا۔ ہمارا٭3مارچ کا ایڈیشن (خواتین نامہ) تھا اور بزم کی حُکم رانی بھی ایک نیک دل خاتون، سعدی ٹائون، کراچی کی خالدہ سمیع ہی کے حصّے آئی۔
٭10مارچ کو یہ اعزاز پایا، ڈی ایچ اے، کراچی کی شاہدہ تبسّم نے۔ ٭17مارچ کو سبّی روڈ، کوئٹہ کے عاجز داد فریادی ابنِ غلام نبی نے اعزاز یافتگان کی فہرست میں جگہ بنائی، تو٭ 24 مارچ اقبال ٹاؤن، راول پنڈی کے محمّد جاوید کا دن تھا۔ جب کہ ٭31ارچ کے شمارے کا اعزاز کراچی کے عروج عباس کے نام رہا۔ ٭ 7اپریل (عیدالفطر ایڈیشن) کی بزم سے دوسری بارعیدی حاصل کرنے میں کام یاب رہے، عاجز داد فریادی۔ ٭14 اپریل کی بزم ہماری خُوب صُورت لکھاری، لاہور کی عشرت جہاں کے نام رہی، تو٭21 اپریل کو ایک بار پھر شگفتہ و شیریں اندازِ تحریر کے ساتھ بزم افروز تھیں، ڈاکٹر تبسّم سلیم۔ جب کہ٭ 28 اپریل کی محفل لوٹ لے گئیں، کراچی کی عائشہ ناصر۔
٭5 مئی کی محفل جگمگائی، بلدیہ کالونی، چشتیاں، بہاول نگر کے جاوید اقبال کے نامے سے۔ ٭12 مئی ہمارے خاص الخاص ’’مدرز ڈے ایڈیشن‘‘ کے مہمانِ خصوصی بنے، شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی ، اور٭19مئی تک ٹھہرے ہی رہے، جب کہ وہ سال کے پانچویں ہی مہینے میں پانچویں مرتبہ جلوہ افروز تھے۔ اور٭26مئی کو بزم کی صدارت دوسری بار بہاول نگر کے جاوید اقبال کےحصّے آگئی۔٭2 جون کو کچھ اور بھی گرمایا، کراچی کے عروج عباس کی چٹھی نے۔
٭9 جون کو پنڈی کے محمد جاوید دوسری بار بازی لے گئے، تو٭16 جون کا ہمارا بہت ہی خاص، بےحد شان دار جریدہ (عید الاضحٰی + فادرز ڈے اسپیشل ایڈیشن) اس اعتبار سے کچھ اور بھی اہم اور خاص ہوگیا کہ ایک تو ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی تاریخ کی شاید طویل ترین (سند یافتہ) چٹھی سیال کوٹ کی شائستہ اظہر کی شائع ہوئی، تو ساتھ ہی ایک بہت ہی شوخ و چنچل سی لڑکی عروبہ غزل (عین غین) نے بھی بالآخر ہمیں ’’ای میل آف دی ویک‘‘ کا اعزاز دینے پر گویا مجبور ہی کردیا۔
یہاں تک کہ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ کا سائز تک بڑھانا پڑا۔ ٭23 جون کو شہزادہ صاحب چھٹی بار بزم کی اونچی کرسی پر براجمان ہوئے، تو ٭ 30 جون کو ہماری ’’ملکۂ جذبات‘‘ ڈیفینس ، لاہور کی نازلی فیصل نے بالآخر خود کو بزم کی ’’ملکۂ عالیہ‘‘ تسلیم کروا کے ہی دَم لیا۔
٭ 7 جولائی کا شمارہ پیاری سی عشرت جہاں کو دوسری بار سرفراز کرگیا۔ ٭ 14 جولائی کے ’’عاشورۂ محرم ایڈیشن‘‘ میں شہزادہ بشیر ساتویں بار مسند نشین ہوئے اور٭21 جولائی کو آٹھویں بار، جب کہ٭28ولائی کو ہماری اسپیشل مہمان بنیں، زلیخا جاوید اصغر۔ ٭4 اگست کا ایڈیشن، عاجزداد فریادی کی ہیٹ ٹرک کا مُژدہ لایا۔
٭11اگست کا ہمارا خُوب صُورت ’’جشنِ آزادی اسپیشل شمارہ‘‘ مرصّع تھا، ضیاء الحق قائم خانی کی اعزازی چٹھی سے۔ ٭18اگست کو شہزادہ صاحب نویں کام یابی کے حق دار ٹھہرائے گئے، تو٭ 25 اگست کو دسویں۔ ٭یکم ستمبر کا ہمارا پسندیدہ ترین شمارہ ’’عالمی یومِ حجاب ایڈیشن‘‘ شہزادہ بشیر کو گیارہویں بار محترم و معتبر کر گیا، تو ٭8 ستمبر کے ایڈیشن سے وہ درجن بَھر اعزاز چٹھیوں کے مالک و مختار ٹھہرے۔
٭ 15 ستمبر کے پاکیزہ و مقدّس سے شمارے (ربیع الاوّل ایڈیشن) سے تیسری بار اعزاز یافتہ ہوئیں، سچّی و سُچّی لکھاری عشرت جہاں۔ ٭22 ستمبر، جاوید اقبال کی ہیٹ ٹرک کا دن تھا، تو ٭29ستمبر کو وہ چوتھی سیڑھی بھی چڑھنے میں کام یاب ہوگئے۔ ٭6اکتوبر کا ایڈیشن اور شہزادہ بشیر کی تیرہویں فتح کا دن۔
٭13 اکتوبر کو بہت ہی پیاری ، نہایت چلبلی اور کسی حد تک بھولی بھالی سی اسماء خان دمڑ نے سنجاوی، بلوچستان سے ایک طویل عرصے بعد اینٹری دی اور آتے ہی چھا گئی ۔ ٭20اکتوبر شہزادہ صاحب کی چودہویں اور ٭27 اکتوبر پندرھویں کام یابی پر بھی مُہر ثبت کرنے کے دن تھے۔٭3نومبر کو قصور کے عبدالجبار رومی انصاری پہلی بار بزم میں جلوہ گر ہوئے، تو اِسی طرح٭ 10 نومبر کو کوٹ غلام ادّو، میرپور خاص کی طوبیٰ زنیب مغل بھی پہلی ہی بار سند یافتہ ٹھہریں۔٭ 17 نومبر کو شیریں گفتار، ڈاکٹر تبسّم سلیم بھی ہیٹ ٹرک کرگئیں، تو ٭24 نومبر کی محفل چوتھی بار جاوید اقبال کی سُرخ روئی کا پروانہ لائی۔
٭یکم دسمبر کی حسین و دل نشین بزم میں ’’مرزا غالب‘‘ کے قلمی نام سے ایک شاہ کار تخلیق کیا گیا، تو ٭8دسمبر سولہویں اعزاز کے ساتھ شہزادہ بشیر کو کچھ اور بھی نیک نام کرگیا۔ ٭15 دسمبر کو عشرت جہاں چوتھی بار ونر ٹھہریں، تو ٭22 دسمبر کو ضیاءالحق قائم خانی نے بھی ہیٹ ٹرک کرنے والوں کی فہرست میں جگہ بنالی اور سال 2024 ء کے آخری شمارے٭ 29 دسمبر کی آخری بزم کے چیمپئن کا اعزاز ایک بار پھر شہزادہ بشیر ہی کے حصّے آیا۔
سال بھر کی بہترین چِٹھیوں کے جائزے اور پھر اُن میں سے ایک"Bestest" چِٹھی کا انتخاب اس بار بھی کچھ زیادہ مشکل ثابت نہ ہوا کہ گرچہ سیال کوٹ کی شائستہ اظہر صرف ایک چٹھی کے ساتھ آئیں، لیکن وہ ایک ہی خط پورے سال کے سب خطوط پر بازی لے گیا۔ تو بھئی، سال 2023 ء کی طرح، سال 2024 ء کی بہترین چھٹی کی سند بھی ’’شائستہ اظہر، سیال کوٹ‘‘ کو دی جاتی ہے۔
ہاں، اس دفعہ کہانی میں ایک ذرا سا ٹوئسٹ ہے، اور وہ یہ کہ اس بار ’’سال کی بہترین ای میل‘‘ کا بھی اعزاز دیا جارہا ہے اور اُس کی حق دار یقیناً ون اینڈ اونلی ’’عروبہ غزل‘‘ ہیں۔ شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی اپنے کئی طویل اور بہت خُوب صُورت خطوط کے ساتھ دیگر تمام نامہ نگاروں پر اِس لیے فوقیت رکھتے ہیں کہ وہ سال بھر نہ صرف جریدے کا پوری دل جمعی سے مطالعہ کرتے بلکہ ہمیں اپنی قیمتی آراء سے بھی نوازتے رہے۔
جاوید اقبال، ضیاء الحق قائم خانی، عشرت جہاں، ڈاکٹر تبسّم سلیم بھی قابلِ صد ستائش ہیں کہ اِس قدر مصروف دَور میں بھی جریدے سے بطور قاری ولکھاری وابستگی اختیار کیے رکھی۔ دیگر خطوط نگاروں میں پرنس افضل شاہین، رونق افروز برقی، سیّد زاہد علی، شری مُرلی چند جی گوپی چند، شمائلہ نیاز، بابر سلیم خان، سیّد شاہ عالم زمرد، نواب زادہ بےکار ملک، نرجس مختار، مصباح طیّب، ماہ نور شاہد، ڈاکٹر حمزہ خان ڈاھا، ناز جعفری، سخاوت علی جوہر، محمّد صفدر خان ساغر، صدیق فنکار، تجمّل حسین مرزا، شبینہ گل انصاری، محمّد عثمان، چوہدری قمرجہاں، مریم طلعت محمود، حسن علی چوہدری، چاچا چھکن، عبداللہ فاروق اور جمیل ادیب سیّد بھی ہمارے لیے بےحد قابلِ تکریم ہیں۔
اِسی طرح ہم ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں حصّہ ڈالنے والوں مثلاً قرأت نقوی، محمّد کاشف، ثناء توفیق، محمّد عمیر جمیل، صاعقہ سبحان، حیات الحسینی، محمّد اقبال شاکر، فوزیہ ناہید سیال، قراۃ العین فاروق، وقار الحسن، عمیر محمود، احسن مرزا، رانا علی رضا، افروز عنایت، بلقیس متین، محمّد سلیم راجا (اچھے بھلے شان دار قلمی خطوط لکھتے لکھتے برقی خطوط کی طرف ہجرت کرگئے) اور ’’مشرقی لڑکی‘‘ وغیرہ کے بےحد ممنون اور تہہ دل سے شُکر گزار ہیں کہ اِن سب نے سال 2024 ء میں خُوب رونق لگائے رکھی۔
بےشک، آپ لوگ ہیں، تو یہ محفل سجی ہے۔ آپ سب نہ صرف اس بزم بلکہ جریدے کی ’’شہہ رگ‘‘ ہیں۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ کی رگوں میں تاحال اگر خون دوڑ رہا ہے، تووہ درحقیقت آپ ہی کی بدولت ہے۔ وگرنہ تو کیسے کیسے نامی، بے نام ہوئے۔ کتنے ہی مقبولِ عام اخبارات و جرائد قصۂ پارینہ ہوگئے۔ سو، جاتے جاتے آپ کے لیے بس اتنا ہی کہیں گے۔ ؎ خط اُن کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی…اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk