• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہمارے دفتر میں ایک کرائم رپورٹر تھے کافی موٹے تازے، انکی موٹر سائیکل بھی انہی کے سائز کی تھی۔ وہ بیٹھے بیٹھے سو جاتے اور باآواز بلند خراٹے بھی لینے لگتے۔ آپ یقین مانیں میں نے ایک روز انہیں موٹر سائیکل چلاتے سوئے دیکھا تھا۔ یقیناً یہ دورانیہ چند لمحوں کا ہوگا مگر ایسا ہوا ضرور۔ ایک دن ان کے ایک کولیگ نے مجید صاحب سے شکایت کی کہ موصوف کام کے دوران اکثر سو جاتے ہیں اس پر مجید صاحب نے نیوز روم میں ان سے فون ملوایا اور کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ دفتر میں سوئے رہتے ہیں یہ سن کر انہوں نے قسمیہ کہا کہ کسی نے آپ سے غلط بیانی کی ہے میں اتنا غیر ذمے دار نہیں ہوں کہ کام کے دوران سو جائوں۔یہ کہتے کہتے وہ سو گئے اور ساتھ ہی باقاعدہ خراٹے لینا شروع کردیئے۔ ان سے وابستہ ان کی لکھی ہوئی ایک خبر بھی ہے کہ لاہور کے علاقہ بھونڈ پورہ میں ایک ہفتے کے دوران چھ چوریاں ہوئیں خبروں میں خبر دینے کے بعد عموماً یہ لکھا ہوتاہے ’’واضح رہے‘‘ کرائم رپورٹر نے یہ خبر لکھنے کے بعد سوچا کہ انہیں بھی آخر میں واضح رہے لکھنا چاہیے چنانچہ انہوں نے آخر میں لکھا ’’واضح رہے اس علاقے میں ابھی مزید چوریاں ہوں گی‘‘۔

ہمارے دفتر میں ایک سے ایک نفیس لوگ کام کرتے تھے ان میں بطور خاص مسعود ہمدانی مجھے یاد ہیں۔ عجز و انکسار کے پیکر اور لہجے میں بھی اتنی منمناہٹ کہ مجھ ایسے جونیئر سے بھی کچھ کہنا چاہتے تو مجھے خدشہ ہوتا کہ کہیں مجھ سے ادھار نہ مانگ لیں۔ اب اس سے ہٹ کر ایک بات۔ میں اپنے دفتر میں خوش لباس اور فضول خرچ مشہور تھا کیونکہ ابا جی کچھ مانگتے ہی نہیں تھے میں اپنے آپ انہیں بتائے بغیر ان کی جیب میں کچھ رقم ڈال دیتا تھا۔مجھے اپنے ابا جی سے عشق تھا اور آج بھی کبھی کبھی تنہائیوں میں انہیں یاد کرتے ہوئے میری قمیض بھیگ جاتی ہے۔ انہوں نے عبادات کے معاملے میں تساہل پر مجھے بہت ڈانٹا ایک آدھ دفعہ پٹائی بھی کی جب میں تیسری چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا وہ مجھے خود نہلاتے تھے۔ یہ قصہ بہت طویل ہے۔ میں والد ماجد پر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ بہر حال میری خوش لباسی اور فضول خرچی کی شہرت کی وجہ سے ہمارا ایک کاپی پیسٹر عبدالرحمان، خوش شکل اور خوش خصال ، ایک دن میرے گھر آیا ، گفتگو کے دوران لگتا تھا کہ کچھ کہنا چاہتا ہے مگر جھجک رہا ہے۔ بالآخر اس نے اپنے محسوسات پر قابو پاتے ہوئے کہا قاسمی صاحب مجھے پانچ ہزار روپے ادھار چاہئیں، میں نے اس کی بات سنتے ہی کہا آپ پانچ منٹ انتظار کریں، میں اندر سے ہو کر آتا ہوں، میں جب واپس آیا تو میرے ہاتھ میں قرآن تھا، میں نے اس پر ہاتھ رکھ کر کہا عبدالرحمان بھائی میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ یہ سن کر عبدالرحمان شرم سے پانی پانی ہوگیا اور کہا مجھے یقین دلانے کیلئے اتنی بھاری قسم کھانے کی کیا ضرورت تھی۔

نوائے وقت میں میرے ایک دوست قیوم اعتصامی تھے۔ جب ’’جنگ‘‘ لاہور سے شروع ہوا تو وہ پہلے شخص تھے جو نوائے وقت چھوڑ کر ’’جنگ‘‘ میں چلے گئے۔ بے حد مہربان اور میزبان۔ ان کے گھر سے جو کھانا آتا تھا وہ آٹھ دس افراد کیلئے ہوتا تھا۔ چنانچہ جس روز ان کی چھٹی ہوتی تو یار لوگوں کو بازار سے کھانا منگوا کر کھانا انتہائی ’’ناگوار‘‘ گزرتا۔ ویسے وہ موڈی بہت تھے موڈ اچھا ہوتا تو ان سے اچھی کمپنی کسی اور کی نہیں ہوتی تھی اور اگر موڈ بگڑا ہوا ہوتا تو ایسی شکل بنا کر بیٹھے ہوتے کہ ان سے بات کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ ایک دن ان کا ایک دیرینہ دوست انکے پاس آیا انہوں نے کچھ اتنی بےرخی سے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا کہ ملانا ہے تو ملا لو نہیں تو بھاڑ میں جائو۔ اب وہ ان کی سامنے والی کرسی پر بیٹھا ہے اور یہ اس سے بے نیاز اپنے کام میں لگے رہے، بالآخر اس نے بات شروع کرنے کے لئے انہیں مخاطب کیا اور پوچھا قیوم صاحب ٹائم کیا ہوا ہے؟ انہوں نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا ’’میں نے یہ گھڑی تمہیں ٹائم بتانے کیلئے نہیں رکھی ہوئی‘‘۔ اس کے بعد وہ بے چارہ مزید کتنی دیر اور ان کے پاس بیٹھتا، سلام دعا لئے بغیر اٹھ کر چلا گیا۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اپنے ادبی صفحے کے اجرا کا ذکر کیا تھا اس میں زیادہ ذکر و اذکار اور لکھنے والوں کی ایک تعداد پر نظریہ پاکستان کے مخالف ہونے کا ٹھپہ لگا ہوا تھا حالانکہ میں نظریات نہیں معیار دیکھ کر تحریر کی اشاعت کا فیصلہ کرتا تھا، ہم ہر ترقی پسند کو کمیونسٹ یا اینٹی پاکستان سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ ہمارے ادیب ترقی پسند تو ضرور ہیں مگر ان میں شاید ہی کوئی اینٹی پاکستان ہو۔ ایک دن ڈاکٹر وزیر آغا مرحوم ، قیوم نظر مرحوم اور شاید ڈاکٹر وحید قریشی بھی وفد کی صورت میں مجید نظامی کے پاس آئے اور کہا آپ اکثر حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ’’اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرے‘‘ جہاں کمیونسٹ چھپے ہوئے ہیں، آپ خود بھی اپنے ادبی صفحہ کی چارپائی تھلے ڈانگ پھیریں وہاں بھی زیادہ تر پاکستان مخالف ہی نظر آتے ہیں۔ انہی دنوں مجید صاحب کے ایک قریبی عزیز اکبر ملک کا مضمون اس حوالے سے میرے خلاف شائع ہوا۔ ان دنوں میں خاصا سینئرہو چکا تھا اور میری تنخواہ بھی سینتیس ہزار روپے ہو چکی تھی۔ مجھے ہفتے میں چھ کالم لکھنا پڑتے تھے، چنانچہ میں نے نظامی صاحب سے بات کی کہ ادبی صفحہ کی ذمہ داری کسی اور کے سپرد کردیں، سو ایسا ہی ہوا اور میں خوش و خرم زندگی بسر کرنے لگا۔

ان دنوں ایک دلچسپ واقعہ ہوا جو مجھے بھولتا نہیں۔ ہمارے دفتر میں ایک بہت اچھے شاعر بیدار سرمدی صاحب تھے۔ ایک روز ایک صاحب ان سے ملنے آئے اور ان سے اتنی پرجوش جپھی ڈالی کہ بیدار کا دم گھٹنے لگا۔ اس وجہ سے بھی کہ اتنی پرجوش جپھی ڈالنے والے کو وہ جانتے تک نہیں تھے۔ ان صاحب نے جب بیدار کے چہرے پر بیگانگی دیکھی تو حیران ہو کر کہا لگتا ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں،بیدار نے کہا ’’جی میں آپ کو نہیں پہچان سکا‘‘ اس پر ان صاحب نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا ’’آپ کو یاد ہے آپ بارہ سال قبل لیہ کے ایک مشاعرے میں تشریف لائے تھے‘‘۔ بیدار نے کہا ’’ہاںمجھے یاد ہے‘‘۔ یہ سن کر ان صاحب نے ایک بار پھر کفِ افسوس ملتے ہوئے کہا ’’جناب میں وہی ہوں جس نے اس مشاعرے میں آپ کو داد دی تھی‘‘۔ (جاری ہے)

تازہ ترین