تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث دنیا بھر میں متبادل توانائی کے ذرائع ’’بائیو فیول‘‘ کے ایندھن کے طور پر استعمال کے فروغ کیلئے کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ ہالینڈ کے انرجی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر اور توانائی امور کے ڈچ ماہر ٹون ہاف نے دنیا کو وارننگ دی ہے کہ تیل کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں اور وہ وقت جلد آنے والا ہے جب یہی قیمتیں آسمان پر پہنچ کر ہماری دسترس سے باہر ہو جائیں گی۔ توانائی امور کے ڈچ ماہر نے اہل سیاست اور سرمایہ داروں کو خبردار کیا ہے کہ متبادل توانائی کی قیمتوں کو اس سطح پر لانے کیلئےابھی کم و بیش پچاس سے ساٹھ سال لگیں گے جہاں انہیں عام استعمال کیا جائے،یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ نے متبادل توانائی کے ذرائع تلاش کرتے ہوئے استعمال شدہ بیج سے’’بائیو فیول‘‘ کی پیداوار کے ایک پلانٹ کا افتتاح کیا ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچنے کے بعد یورپی ممالک نے گنے اور سبزیوں کی مدد سے’’بائیو فیول‘‘ کی تیاری کو فروغ دینے کے اقدامات شروع کر دیے ہیں، سولر آئل سسٹم کہلانے والا یہ پلانٹ پیور پلانٹ آئل پیدا کرتا ہے جو کسی بھی بڑی یا چھوٹی کار میں پٹرول کی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے ہالینڈ کے سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ بائیو فیول ایک صاف اور ’’دوستانہ ماحول‘‘ والے ایندھن کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے جو پٹرول اور ڈیزل کا ایک کامیاب اور اچھا متبادل بھی ہے۔ کنویں کی شکل میں تیل کے یہ ذخائر بہت محدود ہیں۔ ایک نہ ایک دن ان کا خشک ہو جانا طے ہے جتنی تیزی سے کچے تیل کی مانگ بڑھ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ’’عظیم ممالک‘‘ نے عراق کے ذخائر پر اپنا قبضہ جمانے کی کوششوں میں اپنے 6000ہزار سے زائد سپاہیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔یہی وجہ ہے کہ پٹرول کی سیاست سے لت پت مغربی ممالک نے پٹرول کے موثر متبادل کی زور و شور سے تلاش شروع کر دی ہے۔جن میں ہالینڈ پیش پیش ہے۔ ’’ایندھن کنگ‘‘ بننے کی دوڑ میں فی الحال سب سے آگے ہائیڈروجن کا نام ہے۔ یہ گیس یوں تو ہماری آب و ہوا میں زبردست طور پر گھلی ہوئی ہے لیکن اسے ’’الگ‘‘ کرنا اور ایندھن کے طور پر استعمال کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ آگ سے قریبی رشتہ رکھنے والی اس گیس کو محفوظ ذخیرے کی شکل میں رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ اسکی پیداواری لاگت بھی فی الحال زیادہ ہے اسکے باوجود جرمنی، جاپان نے قیمتی کاریں ہائیڈروجن گیس سےسڑکوں پر دوڑا دی ہیں۔ کہتے ہیں 2026تک امریکہ میں ہائیڈروجن سے چلنے والی موٹر گاڑیاں عام دکھائی دینے لگیں گی۔ پٹرولیم کا دوسرا متبادل ’’بائیو فیول‘‘ یا ’’بائیو ڈیزل‘‘ ہے۔ یہ متبادل تیزی سے ابھر رہا ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے بائیو فیول پیڑ پودوں سے حاصل ہونے والا تیل ہے جسے انجن میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بائیو ڈیزل پر تحقیق کے ابتدائی دور میں ارنڈی، سورج مکھی، ناریل، سویا بین، زیتون، بنولہ، تاڑ جیسی فصلوں کے تیل ڈیزل ایندھن میں آزمائے گئے اور کامیاب بھی رہے۔ ان کے ساتھ کچھ تکنیکی مسائل کے علاوہ اونچی قیمتوں کا چیلنج بھی تھا لیکن جلد ہی سائنس دانوں نے’’جٹ روفا‘‘ نامی جنگلی پودے کے بیج سے ملنے والے تیل کو ڈیزل کی جگہ لا کر دیگر تیلوں کے چیلنج کو ختم کر دیا۔ آج ’’جٹ روفا‘‘ کا تیل بائیو ڈیزل کا ہم معنی بن گیا ہے۔ پیڑ پودوں سے حاصل کیے جانے والے پٹرولیم متبادلات میں ایتھنال کا نام بھی کافی نمایاں ہے یہ ایک طرح کا الکحل ہے جسے گنے کے رس یا شیرے سے بنایا جاتا ہے خالص ایتھنال کو پٹرول کی جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ برازیل گنا پیدا کرنے والا ایک اہم ملک ہے یہاں گزشتہ 70 سال سے ایتھنال کو پٹرول ملا کر استعمال کیا جا رہا ہے شروعات میں پانچ فیصد ایتھنال ملانے سے ہوئی تھی اور آج وہاں پٹرول میں 25فیصد ایتھنال ملایا جا رہا ہے اس سے برازیل میں پٹرول کی مانگ تقریباً ایک چوتھائی کم ہو گئی ہے۔ امریکہ میں ہر سال ڈیڑھ ارب گیلن ایتھنال 10 فیصد کی شرح سے پٹرول میں ملایا جا رہا ہے۔ ایتھنال ملا ہوا پیٹرول ماحولیات کو بہتر بنانے کا کام بھی کرتا ہے اس سے پٹرول کی آتش گیر صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے علاوہ ازیں دھواں بھی کم ہوتا ہے۔ ایتھنال کی طرح میتھنال بھی ایک الکحل ہے جس میں 12فیصد کی شرح سے پٹرول میں ملایا جاتا ہے۔ حرف آخر طور پر مجھے یہ کہنا ہےکہ پٹرولیم مصنوعات کے موثر متبادل کے طور پر کئی انجن سامنے آئے ہیں کئی آ رہے ہیں جس دن حضرت انسان نے یہ سب کچھ پا یہ تکمیل تک پہنچا دیا، جس دن یہ ایندھن تیار ہو گیا اس دن پٹرول کو الوداع کہنے میں دیر نہیں کی جائے گی۔