پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے گزشتہ روز پریس کانفرنس سےخطاب میںکئی اہم قومی معاملات پر اظہار خیال کیا۔ ان کا بنیادی موضوع پاکستانی قوم کو پچھلے کئی برسوں سے درپیش وہ سیاسی انتشار تھا جس سے نجات پائے بغیر نہ سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ممکن ہے نہ مستقل بنیاوں پر معاشی استحکام اور سرمایہ کاری کے راستے کھل سکتے ہیں اور جس کا نقطہ عروج سانحہ 9 مئی کی شکل میں قوم کے سامنے آیا۔پاک فوج کے ترجمان کا کہناتھا کہ9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام کا مقدمہ ہے اورانصاف کا عمل 9مئی کے اصل گھناؤنے کرداروں اور منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچانے تک چلے گا۔ ان کا مؤقف تھا کہ کچھ لوگ اپنی سیاست کیلئے نوجوانوں میں زہر بھرتے ہیں‘ اس بیانیے اور زہریلے پرو پیگنڈے کی بنیاد رکھنے والے ہی اصل ماسٹر مائنڈ ہیں۔ دہشت گردی کا جو مسئلہ ایک بار پھر پوری شدت سے اٹھ کھڑا ہوا ہے، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اس کا اصل سبب دہشت گرد عناصر کو ملک میں نئے سرے سے آباد ہوجانے کی اجازت دیے جانے کو قرار دیا ۔ انہوں نے سوال کیا کہ’’ 2021ء میں کس کی ضدتھی کہ فتنہ الخوارج سے بات چیت کرکے انہیں دوبارہ آباد کیا جائے؟ایک شخص کی غلطی کی قیمت قوم نے اپنے خون سے ادا کی، فورسز غلط فیصلوں کے دھبے اپنے خون سے دھو رہی ہیں۔‘‘سانحہ 9 مئی میں ملوث افراد پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے عمل کا بھی انہوں نےبھرپور دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ’’ 9 مئی کے پیچھے مربوط منصوبہ بندی تھی، اس سازش میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے، ملٹری ٹرائل میں ملزم کو قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں،ملٹری کورٹس کو عالمی عدالت کی تائید حاصل ہے‘جو لوگ فوجی عدالتوں کے مخالف ہیں کچھ عرصہ پہلے تک ان عدالتوں کے سب سے بڑے داعی تھے۔‘‘ سانحہ 9 مئی پر پاک فوج کا یہ سخت موقف بلاجواز نہیں۔ 9 مئی کے واقعات کہیں خلا میں پیش نہیں آئے بلکہ برسرزمین ملک بھر کے عوام کی نگاہوں کے سامنے وقوع پذیر ہوئے تھے۔ تاہم اس کا ارتکاب کرنے والوں کو عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کرکے ہی سزا دی جاسکتی ہے۔ فوجی عدالتوں میں اگر ان تقاضوں کی تکمیل کا اہتمام کیا جارہا ہے تو ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں اپیلوں کے مرحلے میں فوجی عدالتوں کے فیصلے برقرار رہیں گے ورنہ آئین اور قانون کے مطابق ان میں ردّوبدل ہوجائے گا۔ سپریم کورٹ نے اسی بنا پر فوجی عدالتوں کے روکے گئے فیصلے سنائے جانے کی اجازت دی تھی۔ لہٰذا یہ اندیشہ بے بنیاد ہے کہ ملزموں کو مکمل انصاف نہیں مل سکے گا ۔ ملک کے اندر اور باہر فوجی عدالتوں پر نکتہ چینی کرنے والوں کو یہ حقائق بھی پیش نظر رکھنے چاہئیں۔ فوجی ترجمان کا یہ کہنا بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ جو سیاسی عناصر اپنے دور اقتدار میں فوجی عدالتوں کی وکالت کرتے رہے ہیں ، ان کی جانب سے اس عدالتی عمل کی مخالفت کوئی جواز نہیں رکھتی۔ پاک فوج کے ترجمان کا یہ مؤقف البتہ نظر ثانی کا طالب ہے کہ 2021ء میں ایک شخص کے غلط فیصلے نے ملک کو ازسرنو دہشت گردی سے دوچار کردیا کیونکہ یہ فیصلہ اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادت کا متفقہ فیصلہ تھا۔ لہٰذا جو بھاری نقصان اس کے نتیجے میں قوم کو اٹھانا پڑ رہا ہے، اس کی ذمے داری دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ دہشت گردوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت کے متاثر کن اعداد وشمار بھی جنرل احمد شریف نے پیش کیے لیکن مسئلے کے مستقل حل کیلئے موجودہ افغان حکومت سے بامقصد اور فیصلہ کن مذاکرات بہرحال ضروری ہیں ۔ سیاستدانوںمیں مذاکراتی عمل کا پاک فوج کی جانب سے سراہا جانا خوش آئند ہے ۔ بلاشبہ سیاسی قوتیں اگر اپنے اختلافات احتجاج اور محاذ آرائی کے بجائے بات چیت سے حل کرنے لگیں تو عسکری قیادت کیلئے بھی اپنی اصل ذمے داریوں پر پوری توجہ دینا ممکن ہوگا۔