آئی ایم ایف نے اپنی فنانشل مانیٹرنگ رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں سال دنیا کا مجموعی سرکاری قرض پہلی مرتبہ ایک ہزار کھرب ڈالر سے بڑھنے کا خدشہ ہے، ایک ہزار کھرب ڈالر بہت بڑی رقم ہے جو متعدد خوشحال ملکوں کے بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اسکی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں جسکے مطابق کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر سست شرح نمو کی وجہ سے قرض کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے اور اسی وجہ سے سرکاری اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اب اگر سست شرح نمو میں کمی کیلئے اقدامات کیے جائیں تو بھی قرض کے سوا کو ئی راستہ نہیں رہتا۔ پاکستان بھی اِسی کا ایک حصہ ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حالات سے کیسے نمٹا جائے۔ اپنی مصنوعات کیلئے نئی منڈیاں تلاش کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ شکر ہے گزشتہ دو سال سے جاری معاشی جمود کے بعد معاشی میدان سے مثبت خبریں آ رہی ہیں اور بحالی کا عمل تیز ہو رہا ہے۔ رواں مالی سال میں مثبت معاشی خبروں کا سلسلہ تیز ہوا ہے اور اقتصادی بحران کے بادل چھٹنے لگے ہیں۔ نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ سر پلس رہنے کا سلسلہ چوتھے مہینے بھی جاری رہا اور محض نومبر سرپلس 72کروڑ 90لاکھ ڈالر رہا، جو مارچ 2015ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران سر پلس 94کروڑ 40لاکھ ڈالر رہا۔ کم درآمدات، مناسب بر آمدات اور مضبوط ترسیلات زر کرنٹ اکاؤنٹ کی صورتحال کو بہتر بنا رہی ہیں۔ دوسری جانب براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) بھی مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں ایک ارب 12کروڑ ڈالر کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ چین سب سے بڑے سرمایہ کار کی حیثیت سے پہلے نمبر پر برقرار ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ رواں سال 2.5فیصد سے 3فیصد کی جی ڈی پی نمو کا تخمینہ ہے جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر کا حجم 34ارب ڈالرتک پہنچ جائے گا انہوں نے بتایا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی مطلوبہ شرائط پوری کر لی گئی ہیں جلد ہی اس سے 50کروڑ ڈالر کی فنانسنگ موصول ہو جائے گی۔ نومبر کے اختتام تک زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر بڑھ کر 12ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں مہنگائی میں کمی اور معیشت کی آؤٹ لک بہتر ہوئی ہے البتہ نجی شعبے کے قرض میں اضافہ ہوا ہے گورنر اسٹیٹ بینک نے مزید کہاہے کہ ہمارے انفلوز کے 4ذرائع ہیں جس میں ترسیلات زر سرفہرست ہیں۔ ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں مزید دو فیصد کمی کر دی ہے ،یوں شرح سود 15فیصد سے کم ہو کر 13فیصد تک آگئی ہے۔ سات ماہ میں مسلسل پانچوں مرتبہ شرح سود میں کمی کی گئی ہے اور مستقبل میں مزید کمی کی توقع کی جاری ہے۔ شرح سود کم ہونے سے حکومت پر قرضوں اور سود کی ادا ئیگی کا بوجھ تو فوری کم ہو جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے تقریباً 1300ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ رواں مالی سال کیلئے سود کا تخمینہ 9800ارب روپے تھا جو تقریباً 18فیصد شرح سود کے حساب سے لگایا گیا تھا لیکن شرح سود میں تاریخی کمی کے بعد سود کا خرچ 8500ارب روپے تک آ جائے گا۔ امید ہے اسٹیٹ بینک اس شرح سود کو اور کم کرے گا اس سے ملک میں انڈسٹری لگنے کا راستہ کُھلے گا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویز کے مطابق 2024ء میں وفاقی حکومت کے مقامی قرضوں میں 4ہزار 632ارب روپے کا اضافہ ہوا تاہم مرکزی حکومت کے غیر ملکی قرضوں میں 710ارب روپے کی کمی بھی ہوئی۔ اکتوبر 2024ء تک کے دستیاب سرکاری ڈیٹا کے مطابق حکومتی قرضہ 69ہزار 114ارب روپے رہا۔
2022سے جاری ایسی سرگرمیاں ہو رہی تھیں جن سے صنعتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا جس کے منفی اثرات برآمدات پر مرتب ہورہے تھے اور ان وجوہات کی بنا پر مہنگائی کا گراف بڑھ رہا تھا اور کارخانوں میں چھانٹی ہو رہی تھی، معاشی حالات خراب ہورہے تھے اس میں شک نہیں کہ اسکے مقابلے میں جب کساد بازاری جاری تھی، اب کہیں جا کر معاشی سرگرمیوں میں پہلے کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کا اپنا الگ سے پیمانہ ہوتا ہے جس میں وہ ناپ تول کرتا ہے اور اس کا تعلق عالمی سیاسی معیشت کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور عالمی قوتیں ہوں یا عالمی مالیاتی امور کے ادارے یا پاکستان کی معیشت کو مختلف ریٹنگ دینے والے ادارے ہوں ان لوگوں کی زبانی آئی ایم ایف نےکہہ دیا ہے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے۔ اب امید ہے کہ حکومت بجلی کے بلوں میں کمی کر دے گی۔ گیس کے نرخ بھی کم ہو جائیں گے اور مہنگائی کم ہو گی۔ آئی ایم ایف کے نئے طویل المیعاد پروگرام کی رو سے پاکستان میں جی ڈی پی میں ٹیکس کی موجودہ 9فیصد شرح کو 3سال میں 1.5فیصد سالانہ شرح سے بڑھا کر 13.5فیصد تک لے جانا ہو گا جس کیلئے زراعت، ایکسپورٹس، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ سیکٹرز کو نارمل ٹیکس نظام میں لایا گیا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے معاشی مسائل میں اس لیے مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ وہاں سرکاری خزانے کا ایک بڑا حصہ اشرافیہ ہڑپ کر جاتی ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے سب سے پہلے تو اپنے اخراجات میں کمی لائے اور اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی مراعات و سہولیات ختم کرے۔ اس سے اگلا مرحلہ سرمایہ کاری ہے اور قرض صرف اس صورت میں لیا جانا چاہیے جب معاملات کو چلانے کیلئے ہمارے پاس قرض لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو۔ مگر افسوس حکومت کی ساری توجہ غریبوں کی جیبوں سے محصولات کے نام پر زیادہ سے زیادہ پیسہ نکلوانے پر ہے۔ انہوں نے اب تک کوئی ایک ایسی پالیسی نہیں بنائی جس کے ذریعے اشرافیہ سے بھی کچھ وصول کیا جا سکے۔ اقتصادی پالیسیاں درست ہوں تو سارے معاملات خود بخود درست سمت میں چل سکتے ہیں۔ مسائل کے حل کیلئے ہی انہوں نے عوام سے ووٹ لیے ہیں۔ بدعنوانی کا مکمل خاتمہ بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے اگر بدعنوانی جاری ہے تو یہ انتظامیہ کی کمزوری کا اظہار ہے۔ حکومت کو سب سے زیادہ اس پر توجہ دینی چاہیے غریب عوام پر کم سے کم بوجھ آئے یہی بہتری کا راستہ ہے۔