خیبرپختونخوا کے علاقے پارا چنار میں کئی ماہ سے جاری فرقہ وارانہ جنگ میں بڑے پیمانے پر جانی نقصانات جس درجہ المناک اور لائق تشویش ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں۔ راستوں کی بندش نے خوراک اور ادویات کی شدید قلت جیسے مسائل بھی پیدا کردیے ہیں۔ یہ صورت حال صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کی واضح ناکامی ہے جس پر صوبے کے لوگ اپنی حکومت سے باز پرس اور احتجاج کا پورا حق رکھتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پارا چنار کی بدامنی کے خلاف ایک متاثرہ فریق کی نمائندگی کرنے والی جماعت مجلس وحدت المسلمین نے ہفتے بھر سے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک درجن سے زائد مرکزی شاہراہوں پر احتجاجاً دھرنے دے رکھے ہیں جس کے باعث شہریوں کیلئے نقل و حرکت سخت دشوار ہوگئی ہے ۔ اتوار کی رات ایم ڈبلیو ایم کے قائدعلامہ حسن ظفر نقوی سے کمشنر کراچی سید حسن نقوی اور ایڈیشنل آئی جی پولیس جاوید عالم اوڈھو نے ملاقات کی لیکن مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے اور ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے دھرنے جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔مجلس کے ترجمان احمر زیدی کے بقول’’ ہمارے بنیادی مطالبات پاراچنار میں لوگوںکو خوراک اور ادویات کی فراہمی اور بسوں میں سفر کرنیوالے لوگوں کو قتل کرنیوالوں کیخلاف کارروائی، مقتولین کے ورثاء کو معاوضے کی فراہمی اور جرگوں کے ذریعے زمینی تنازعات کے حل سے متعلق تھے۔‘‘ تاہم سوال یہ ہے کہ یہ مطالبات کراچی کی انتظامیہ اور حکومت سندھ سے کیوں کئے جارہے ہیں ؟ ان کیلئے ان مطالبات کی تکمیل بھلا کیسے ممکن ہے؟ جبکہ مجلس وحدت المسلمین خیبر پختون خوا کی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی ہے اور پارہ چنار کی بدامنی کا خاتمہ اس صوبے کی حکمراں جماعت ہی کی ذمے داری ہے، اسلئے ایم ڈبلیو ایم کو یہ مطالبات کے پی کی حکومت ہی سے کرنے چاہئیں اور ضروری ہو تو احتجاج بھی وہیں کرنا چاہئے۔