اسلام آباد(نمائندہ جنگ/مانیٹرنگ ڈیسک ) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ملک کی پائیدار ترقی کے حامل پانچ سالہ قومی اقتصادی منصوبے "اڑان پاکستان" کا افتتاح کرتے ہوئے کہاہے کہ انڈیا کو ترقی دینے کے لئے سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے نواز شریف کے ماڈل کو اختیار کیاجس کی وجہ سے ہندوستان آگے چلاگیا‘پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ٹیکس کم کرنے ہوں گے‘میرا بس چلے تو میں ٹیکس10سے 15 فیصد کم کردوں تاکہ چوری بھی کم ہو اور صلاحیت میں بھی بہتری آئے لیکن اس کا وقت آئے گا‘ حکومت اور ادارے مل کر کام کر رہے ہیں‘میں نے ماضی میں اس طرح کی شراکت نہیں دیکھی‘مجھے بڑے وسوسے ہیں لیکن دعا کرتا ہوں کہ یہ پارٹنر شپ تاقیامت چلتی رہے ‘ 70 سال میں کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی‘ قرضے نہیں لیں گے تو کیا کریں گے‘رونے دھونے کا کو ئی فائدہ نہیں‘ماضی سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے‘ اشرافیہ کو کچھ قربانی دینا ہوگی‘ اگر آج بھی ہم میثاق معیشت پر اتفاق کرلیں تو ہمارے آدھے مسائل حل ہو جائیں ‘ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے ’’اڑان پاکستان‘‘ کو قومی ترقی کا ایک جامع اور متوازن پروگرام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں مقررہ اہداف پورے ہوں گے‘وہ دن دور نہیں جب پاکستان عالمی معیشتوں کی صف میں کھڑا ہو گا ‘وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اوروزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے متوازن ایکشن پلان پیش کیاہے ‘ وزیرخزانہ سینیٹرمحمداورنگزیب کا کہناہے کہ "اڑان پاکستان" پروگرام کے تحت 2028تک جی ڈی پی کی شرح کو 6 فیصد کرنے، سالانہ 10لاکھ اضافی ملازمتیں پیداکرنے اور 60ارب ڈالر کی برآمدات ہمارامطمع نظرہے‘یہ منصوبہ اگلے 3 سال میں ہمیں دنیا کے بڑے ممالک کی صف میں لاکھڑاکرے گا جبکہ احسن اقبال نے کہاہے کہ اب اقتصادی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے ۔تفصیلات کے مطابق منگل کوشہباز شریف نے "اڑان پاکستان" پروگرام کا افتتاح کر دیا ہے جس کا مقصد برآمدات، ای پاکستان، ماحولیات، توانائی، برابری و بااختیار بنانے (فائیو ایز)کی پائیدار بنیاد پر برآمدات کے فروغ کے ذریعے اقتصادی ترقی کا حصول ہے۔ قومی اقتصادی پلان 2024-2029 "اڑان پاکستان " پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج ایک عظیم دن ہے جب ہم "اڑان پاکستان" پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں‘پانچ سالہ منصوبہ میں آئی ٹی، زراعت، برآمدات اور کان کنی اور معدنیات کے شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور اس کی کامیابی قومی و سیاسی ہم آہنگی اورسیاسی جماعتوں، اداروں اور عوام سمیت تمام فریقین کی اجتماعی کاوشوں کے ساتھ منسلک ہے‘گزشتہ 9 ماہ میں ہم نے کئی چیلنجوں اور مشکلات پر قابو پایا ہے، حکومت نے کلی معیشت کا استحکام حاصل کر لیا ہے‘2023ءمیں پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا‘ہم فیصلہ کیا کہ ہم اپنی سیاست کو قومی مفاد پر قربان کریں گے، ہم سیاست نہیں ریاست کو بچانے کیلئے کسی بھی حدتک جائیں گے اور نتیجہ میں جو بھی حالات ہوں گے ان کا سامنا کریں گے۔ آئی ایم ایف پروگرام کو روکنے کیلئے خطوط لکھے گئے، اس سے زیادہ پاکستان اور عوام کے ساتھ اور کیا زیادتی ہو سکتی تھی۔انہوں نے بتایا کہ پچھلی ایک دہائی میں ہمارے ریاستی ملکیتی اداروں نے چھ کھرب روپے کے نقصانات کئے ہیں، اگر بجلی چار کھرب روپے کی بنے اور دو کھرب میں بیچیں گے تو یہ دو کھرب کا خسارہ کس کے کھاتے میں ڈالا جائے گا‘77برسوں میں کھربوں کی کرپشن ہوئی، ہمارے محصولات کا ایک حصہ بھی ہمیں نہ مل سکے توقرضے نہ لیں تو کیا کریں؟اب رونے دھونے اور لعنت ملامت کا کوئی فائدہ نہیں ‘اگرپوری قوم کا م اور محنت کا عزم کر لے تو وہ دن دورنہیں جب پاکستان اقوام عالم میں کھویا ہوا مقام حاصل کر لے گا تاہم ہمیں اس کیلئے راستہ بدلنا ہوگا اور نئی طرز اختیارکرنا ہوگی۔وزیراعظم نے کہا کہ متکبرانہ اور ناپسندیدہ رویوں کی وجہ سے ماضی قریب میں ہم دنیا سے الگ ہو گئے تھے، ایک دوست ملک سے ہم نے ایک ارب ڈالر کا قرضہ مانگا، اس ملک کے اکابرین نے مجھے خود بتایا کہ ہم نے فوری فیصلہ کیا کہ پاکستان کو 500 ملین ڈالر فوری دیتے ہیں مگرپاکستان سے جواب آیا کہ ہمیں 500 ملین ڈالر نہیں چاہئیں، ایک طرف وہ پیسے مانگ رہے تھے اور دوسری طرف سے اکڑ رہے تھے‘ایک طرف ہم نے کشکول اٹھایا ہوا ہے، دوسری طرف کہہ رہے کہ ہمیں نہیں لینا‘ اسی طرح ایک اور دوست ملک سے بھی شکایات آئیں‘رونے دھونے سے کو ئی فائدہ نہیں، ماضی سے سبق پڑھ کر آگے بڑھنا ہے۔حکومتیں اور ادارے مل کرکام کر رہے ہیں۔