اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکن کی حیثیت سے پاکستان نئے سال کے پہلے دن سے آٹھویں بار دوسالہ مدت کا آغاز کررہا ہے۔جون کے مہینے میں اس منصب پر جاپان کی جگہ پاکستان کا انتخاب عمل میں آیا تھا۔ جولائی میں پاکستان سلامتی کونسل کی صدارت کرے گا اور یوں پاکستان کو اہم بین الاقوامی تنازعات کے حوالے سے ایجنڈا طے کرنے اور مسائل کو زیر بحث لانے کا موقع میسر آئے گا۔ داعش اور القاعدہ پر پابندیاں عائد کرنیوالی کمیٹی میں بھی پاکستان کو ایک نشست حاصل ہوگی جس کی بنا پر افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں داعش اور القاعدہ سے وابستگی رکھنے والے عناصر کی جانب سے جاری دہشت گردی کے مسئلے کے حل کی جانب سلامتی کونسل کی معاونت سے پیشرفت بھی ممکن ہوگی ۔ غزہ میں سوا سال سے جاری وحشیانہ اسرائیلی جارحیت ، نیز فلسطین اور کشمیر کے آٹھ دہائیوں پر محیط تنازعات کو بھی سلامتی کونسل میں پوری توانائی کیساتھ اجاگر کرنے کی کوشش کی جاسکے گی۔شام اور مشرق وسطیٰ کی مجموعی صورت حال بھی سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے پاکستان کی خصوصی توجہ کی مستحق ہوگی۔ تاہم یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ بین الاقوامی تنازعات کے حل کی ذمے دار اس اہم ترین عالمی کونسل کے مستقل ارکان کو حاصل ویٹو کے اختیار نے اسے محض ایک نمائشی ادارہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کا پون صدی میں بھی حل نہ ہوپانا اور غزہ میں پندرہ ماہ سے جاری اسرائیل کی وحشیانہ قتل و غارت گری بند کرانے میں قطعی ناکامی اس حقیقت کا بین ثبوت ہے۔ عدل و انصاف کی بنیاد پر اقدامات کے بجائے فی الحقیقت اقوام متحدہ کا ادارہ بڑی طاقتوں کے مفادات کا آلہ کار بن چکا ہے اور اس کے اصل مقاصد کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ مستقل ارکان کو حاصل ویٹو کا اختیار ختم کیا جائے اور فیصلے جمہوری اصول کے مطابق کثرت رائے سے ہوں۔