• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ اور مقبوضہ کشمیر میں سال نہیں بدلا

تحریر: سفیان وحید…کراچی
نئے سال کی ابتدا ہو گئی ہے دنیا کے مختلف ممالک میں نیو ایئر کی تقریبات منعقد کی گئیں لیکن غزہ اور مقبوضہ کشمیر میں گزرے برسوں کی طرح نئے سال میں بھی آگ اور خون کا ظالمانہ کھیل جاری ہے اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ غزہ میں سال نہیں بدلا۔ غزہ میں جو آگ لگائی گئی وہ اب پھیل چکی ہے وہ سمندری راستے مصر سے یمن وہاں سے عمان اور عمان کے بعد ایران و جنوبی ایشیائی ممالک میں داخل ہو رہی ہے اور اس کے اثرات سے عرب بھی محفوظ نہیں دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ عرب ممالک کی پالیسیوں نے معاملات کو انتہائی مشکل کر رکھا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کے مظالم جاری ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ عالمی سطح پر مشرق وسطیٰ کے مسئلے کادوریاستی حل کاموقف پیش کیاجاتا ہے لیکن اسرائیلی جارحیت اور مظالم دوریاستی حل کی راہ میںرکاوٹ ہیں۔عالمی سطح پرامت کودرپیش بڑھتے جارہے ہیں ۔ ہر طرف ایک بے چین سوچ و دماغ یہی دیکھ رہا ہے کہ تیسری عالمی جنگ چھڑسکتی ہے۔ جو آگ غزہ میں لگی وہ اب پھیل چکی ہے وہ سمندری راستے مصر سے یمن وہاں سے عمان اور عمان کے بعد ایران و جنوبی ایشیائی ممالک میں داخل ہورہی ہے اور اس کے اثرات سے عرب بھی محفوظ نہیں دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ عرب ممالک کی پالیسیوں نے معاملات کوانتہائی مشکل کررکھا ہے۔غزہ کے مسلمانوں کو اسرائیلی جارحیت کےساتھ اب موسم کی سختیاں بھی جھیلنا پڑرہی ہیں ۔غزہ میں اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے نمائندے بھی بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ موسم کی خرابی، مسلسل بمباری اور خوراک کی قلت کی وجہ سے شدید انسانی المیہ رونما ہونے کو ہے، مگر ان کی کون سنتا ہے، انسانیت کا درد رکھنے والے کچھ رہنما اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی آواز بلند کر رہی ہیں مگر ان کی آواز بھی نقش بر آب ثابت ہورہی ہے، ایسے میں نہتے فلسطینی داد رسی کے لیے کس کے پاس اور کہاں جائیں، لے دے کر اقوام متحدہ ایک ادارہ تھا جسے اس تنازع پر اپنا کردار ادا کرنا تھا، لیکن اس کی کون سنتا ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندوں نے غزہ میں جاری بمباری، انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹوں، اور بے گناہ شہریوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات پر سخت تنقید کی ہے۔ چین اور دیگر ممالک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکا جائے، اور اسرائیل کو اجتماعی سزا جیسے اقدامات ختم کرنے کی ہدایت کی جائے۔ مزید برآں، کئی ممالک نے غزہ کے شہریوں کو فوری امداد پہنچانے کے لیے زمینی راستوں کی بحالی پر بھی زور دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں جنگ بندی اور انسانی امداد کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ کئی ممالک نے اس صورتحال کو خطے میں امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔وقت آگیا ہے کہ دنیا اب اسرائیلی کونہتے لوگوںکے خون سےہولی کھیلنے سے کسی بھی طرح روکے خاص کوپاکستان اور دیگرعرب و عجم مسلمان ممالک کو مظلوم فلسطینیوں کاقتل عام روکنے کے لئے متحدہوکر موثرکردار اداکرنا چاہئے۔اس تناظرمیں بیک وقت ایک ہی مسئلے کے دو فیصلوں کو قابل عمل بنانا ہوگا یعنی کہ سرزمین مقدسہ کو دین اور دنیاوی فیصلوں پر دوریاستی حل کو بھی یقینی بنانا ہوگا اور امریکی معاہدہ ابراہیمی کے تحت یہودی، عیسائی و مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کرناہوگا۔ اسی طرح مسئلہ کشمیرکے حل کے لئے بھی سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔امت مسلمہ عظیم مسلم خلیفہ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں دین ابراہیم سے جوڑے عقائد یعنی یہودی عیسائی و مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لئے امن محبت و ایک ساتھ زندگی بسر کرنے کی اس حکمت کے پہلوووں کو مقدم مانتی ہے جس میں یہ طے پایا تھا ایک معاہدے کے تحت سرزمین مقدسہ پر تینوں عقائد کے پیروکاروں کو عبادت و زیارت برابرکا برابرحق و اختیارحاصل ہوگا۔امریکی معاہدہ ابراہیمی اس تصویرکوتقویت دیتا ہے ۔ امریکی Abraham Accord کے اس پہلو کو عملی جامع پہنایا جاسکتا یے جس میں یہودی عیسائی و مسلمان کے مشترکہ مستقبل خوشحالی، امن بھائی چارے کی فتح موجود ہے جو امن کا واحد راستہ ہے۔ اس کی بدولت ہی دوریاستوں کا قیام زمینی منصفانہ سرحدی تقسیم پر ممکن ہوگا. جس کا الگ ،الگ دارالحکومت ہوگا۔ اس میں سرزمین مقدسہ کو آزاد شہر بنادیا جائےگا جس کی نظامتی کنجی عیسائیوں کے ہاتھ میں اور امریکی قیادت کو ہوگی۔ لیکن اس میں اسرائیلی جارحیت اور غاضبانہ زمینی قبضہ وہ اصل رکاوٹ ہے جو اقوام متحدہ کی قراردار کو دنیا میں شرمندگی اور ندامت کا باعث بن رہا ہے۔جارحیت کے ذریعے نہ تو شامی سرزمین کا قبضہ کسی قیمت جائز ہے نہ یوکرینی نہ ہی مقبوضہ کشمیر کا۔پاکستان کی سرحدوں پربھی سازشی کھیل کھیلاجارہا ہے ۔انڈیا چاہتا کہ پاکستان کو مغربی سرحدپربرادر اسلامی ملک افغانستان کےساتھ مصروف کردیاجائے تاکہ اس کو مشرقی سرحدپرمقبوضہ کشمیرکومزید گرفت میں لینے کاموقع مل سکے تاہم پاکستان کی مسلح افواج ،حکومت اور عوام ملکی سالمیت اور دفا ع کے لئے پرعزم ہیں اور ملک کے دفاع میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیاجائے گااور پاکستان کے دشمنوں کو ہرمحاذ پرشکست فاش ہوگی اور پاکستان امت کی قیادت کے فرائض بخوبی انجام دے گا۔اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کا جارح ملکوں کو روش بدلنے پرمجور کرنا ہوگا بصور دیگر دنیا دو بڑے خطوں یعنی مشرق و مغرب میں ٹوٹ جائیگی اور تہذیبوں کے تصادم کی وہ جنگ چھڑ جائیگی جس کا رکنا پھرممکن نہیںہوگا۔پاکستان کو اس صورتحال میںقائدانہ کرداراداکرنا ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ملک سیاستدانوں کے اقتدار کے ئے نہیں بنایا گیاہے یہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلئے۔۔۔مشرق و سطی پر اقوام متحدہ کا خواب دوریاستی حل پر مبنی ہے جو ایک اٹل حقیقت ہے لیکن ایکخدا کے ماننے والے تین عقائد کے پیروکاروں کی مشترکہ عبادت و زیارت کی سرزمین کو دو اقوام کے زمینی تنازعہ سے آزاد کروادیا جائے جو نسل اسماعیل و نسل اسحاق کی شجر سے نبوت و رسالت کا سلسلہ چلا اب اسے سرسبز و شاداب بنانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے نبی و رسول حضرت عیسیٰ حکم الٰہی پر اس دنیا میں دوبارہ واپس آ ئیں گے جو کامل ایمان ہے۔ جو شجر اسحاق کے نسل سے پیروکارِ موسی و داوؑد و سلیمان علیہ السلام کے اقوام میں سے ہیں وہ خدا کے نبی و رسول عیسیٰ کے قافلے کا حصہ بنے اس طرح مسلمان حضرت عیسی کے قافلے کا حصہ ہوں گے جو خدا کے حکم پر انشاء اللّہ طواف کعبہ حج و عمرہ کرئینگے جو عبادت کے بعد تعلیم پر ہمیں وہ راز افشاں کریں گے جو اپنی قائم ہونے والی حکومت میں خدا کی واحدانیت کو دنیا میں عام کریں گے۔دنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا انسانوں کے آپس میں امن و محبت سے مل جل کررہنے کے لئے بنائی ہے دنیا کا کوئی ملک ان تمام مسائل کو تنہا حل نہیں کرسکتا ہے اس لئے سب کو دنیا میں امن ،ترقی اور خوشحالی کیلئے اور اسی طریقے پرعمل کرکے آنے والی نسلوں کو محفوظ اور پرامن دنیا مل سکتی ہے ۔
یورپ سے سے مزید