حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن ویسے تو یورپ، امریکہ اور برطانیہ تک میں بزرگوں اور دیگر کمزور افراد کو سماجی و معاشرتی طورپر دور نہیں رکھا جاتا، خاندانی اور سماجی طور پر انہیں تنہا چھوڑ دینا اور معاشرے سے دوری کو بہت بڑی کوتاہی مانا جاتا ہے۔ فرض کیجئے اگر کوئی شخص اپنے خاندان سے کسی وجہ سے دور ہو جاتا ہے خاندان اسے چھوڑ دے کسی وجہ سے یا پھر جس کا کوئی نہ ہو اور وہ مجبور و بے بس زندگی گزارے تو ایسے میں ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے مابین رابطے کو یقینی بنا کر انہیں کسی ادارے سے یا پھر کیئر سینٹر سے رابطہ کرائیں۔ اولڈ ہوم اور کیئر سینٹرز میں ماحول بالکل گھریلو سا ہوتا ہے۔ ہم عمر لوگ آپس میں خوش گپیاں کرتے ہیں، اپنے زندگی کے واقعات اور معاملات و مسائل ایک دوسرے کو بتا کر اور سنا کر اپنے دل کا غبار کم کرتے ہیں۔ پھر یہ ہی لوگ آپس میں دوست اور رشتے دار ہو جاتے ہیں۔ ان معاشروں میں ایک عام تصور ہے کہ ہنسی خوشی سے زندگی گزاری جائے بالکل اسٹریس سے عاری۔مگر دنیا میں پھر جدید سے جدید مسائل ایسے حالات کی طرف لے جاتے ہیں کہ جہاں یوں دکھائی دینے لگتا ہے کہ اب وسائل جیسے جیسے کم ہو رہے ہیں تو ویسے ویسے ہی انسانوں پر بڑھتی عمر کے صحت کے مسائل بھی بڑھتے ہیں وسائل کم ہونا ہی اس کی ایک اہم وجہ نہیں ہے بلکہ ایک بیماری کی ایسی شدت سے یا لاچار ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر سے اپنی زندگی ختم کرنے کا مطالبہ کر دے یا پھر ڈاکٹر خود ہی یہ فیصلہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ درد میں گھٹ گھٹ کر جینے سے اس مریض کیلئے مرنا ہی بہتر ہے۔ برطانیہ میں اب پھر سے یہی موضوع زیربحث ہے بلکہ کئی برسوں سے مجوزہ قانون میں تجویز کیا جاتا ہے کہ انگلینڈ اور ویلز میں لاعلاج بیماری میں مبتلا افراد کو موت کی نیند سونے کی ان کی مرضی کے مطابق اجازت دی جائے۔ آج سے کئی سال قبل 2015میں کسی بھی وابستگی سے بالاتر ہو کر اس ہی قانون پر رائے شمار کرائی گئی تھی جس میں 330ممبران نے اس تجویز کردہ قانون کے خلاف اور 118ممبران نے اسکے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔ 2015پر ہی یہ بحث کا دارومدار نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آج پھر سے یہ بحث چھڑی ہے کہ اب کیا ہوگا؟۔بہت سے بزرگ جو شدید قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں مگر انہیں بھی اپنی بیماری درد و تکالیف سے زیادہ اس بل کی منظوری کے خوف سے پسینہ چھوٹ رہا ہے کہ ہماری جان قدرتی طور پر جانے کی بجائے اس طریقہ کار پر انجام پذیر ہوگی حالانکہ برطانیہ میں انگریزی قانون کے تحت اپنی زندگی کو ختم کرنا قتل تصور کیا جاتا ہے۔خودکشی ایکٹ 1961 کے تحت انگلینڈ اور ویلز میں خودکشی کی حوصلہ افزائی کرنا یا اس میں مدد کرنا بھی جرم مانا جاتا ہے اور ایسے شخص کو 14 برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے جب اس قسم کی بحث چھڑ جائے تو پھر ہر جماعت کے لوگ اپنے دلائل اور موقف پر ڈٹ جاتے ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ قانون لاعلاج بیماریوں میں مبتلا شہریوں، خاندانوں اور طبی شعبے کی ضرورت پر پورا نہیں اترتا۔ یہ بھی کہ معاشرتی رویئے بدل چکے ہیں اور برطانیہ میں اب ایسے قانون کی ضرورت ہے جو ایسے بالغ مریض کو وقار کے ساتھ اپنی زندگی کو ختم کرنے کا اختیار دے۔ دوسری جانب قانون کے مخالفین نےبھی اس قانون کی کھل کر مذمت کی کہ انسانی جان کے کسی بھی ایسے خاتمے کے قانون کو قبول نہیں کیا جائے گا۔اگرچہ مریضوں کیلئے قتل رحم کی مذمت ہر مذہب میں ہے یہ ایسا ہی ہے کہ کمزوروں اور بیماروں کو خودکشی کی طرف مائل کرنا مگر کچھ جدت پرستوں نے زمانے کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور کچھ بالغ و بزرگ مریضوں کے اذہان میں پنپتے خودکشی کے خیالات کے تحت ہی شاید اس قانون کو لاگو کرنے کا سوچا کیونکہ بارہا ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ اپنے مسائل سے تنگ ہو کر یا پھر اپنے مرض کی ناقابل برداشت درد کی شدت سے تنگ پڑ کر خود کو ابدی نیند سلانا چاہتے ہیں۔ چند یورپی ممالک کی دیکھا دیکھی اب باقی ممالک نے بھی اس قانون کی طرف توجہ دینا شروع کردیا ہے۔ شاید اس کی وجہ وہاں کے حالات ہیں ہمارے یہاں اس دنیا میں طبیب کا تصور ماہر علاج ہے ۔ مریض کی جان بچانے کو وہ ہر حربہ استعمال میں لاتا ہے۔ اس کا ارادہ صحت و تندرستی کی کوشش کرنا ہوتا ہے۔ نہ یہ کہ وہ مریض کی حالت دیکھ کر گھبرا جائے اور اس کیلئے موت دینے کے نسخے پر عمل کرے۔ اسلام میں ہے کہ مومن کی حالت ’’سلب ارادہ‘‘ اور خدا تعالیٰ جس بھی حال میں رکھے اس سے راضی رہنا ہے۔ فرمان رسولؐ سے علم ملتا ہے کہ کسی ضرر وپریشانی اور تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا حکم الہٰی سے فرار ہے۔موت کی تمنا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ حیات و زندگی اللہ تعالیٰ کا امر اور حکم ہے۔ لہذا حکم ا لہٰی سے عدم رضا کسی طور جائز نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ سابق زمانہ میں ایک شخص کو زخم تھا اس سے برداشت نہ ہوا اور خود کو اپنے تیر سے زخمی کرلیا تاکہ مر جائے تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اس پر جنت حرام ہو گئی ۔ یوں اسلام میں کسی طور بھی یہ سب خودکشی کے مترادف اور حرام ہے۔