• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم حادثوں کے مارے لوگ اِن دِنوں پھر ایک ایسے حادثے کا غم منارہے ہیں جو ہر تھوڑے عرصے بعد رُونما ہوتا ہے اور ہم ہر مرتبہ رو،پیٹ کر اورحکومت اور متعلقہ حکّام کی جانب سے نمائشی اقدامات اُٹھائے جانےکا اعلان سُن کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد بالکل ویسا ہی سانحہ پھر رُونما ہوجاتا ہے اور پھر ہم اور ہمارے اربابِ اختیار پہلے جیسا ہی ردِّعمل دیتے ہیں۔ دراصل ہم ایسا کرکے ایسے ہی کسی اور سانحے کو رُونما ہونےکی دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔

گزشتہ ماہ یونان کی سمندری حدود میں حادثے کا شکار ہونے والی کشتی کے ساتھ ہی سیکڑوں افراد کے سہانے خواب بھی سمندر بُرد ہوگئے۔ جانے کِس کِس نے کیا کیا خواب بُنے ہوں گےاور اس سفر میں کیسی کیسی اذیتیں برداشت کی ہوں گی۔

اب حکومت سے لے کر عام آدمی تک اس سانحے کا سوگ منارہا ہے جس میں اب تک کی اطلاع کے مطابق نو ہم وطنوں کی لاشیں مل چکی ہیں اور چالیس تا حال لاپتا ہیں۔ گزشتہ برس بھی یونان میں ایسا ہی سانحہ ہوا تھا جس میں ایک سو چار پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

پہلے سب سوئے ہوئے تھے

اب انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹس دھڑا دھڑ پکڑے جارہے ہیں اورحکّام گہری نیند سے بے دار ہوگئے ہیں۔ اس سانحے پر وزیر اعظم کی جانب سے سخت نوٹس لیے جانے پر ایف آئی اے کے اعلی حکام نے پھرتیاں دکھا نا شروع کردی ہیں۔

تاہم اس حادثے کی تحقیقات میں تاحال کسی اعلیٰ افسر پر کوئی ذمے داری ڈالی گئی ہے اور نہ ہی کوئی اعلیٰ افسر مستعفی ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے اردل روم کا انعقاد کیا اور پیش ہونے والے 35 ملازمین کو حادثے کا ذمے دار قرا دے کر انہیں ملازمت سے برخاست کردیا ہے اور 13اہل کاروں کے خلاف مقدمات درج کرا دیے ہیں۔

دوسری جانب ایف آئی اے اسلام آباد زون نے انٹیلی جینس بیسڈ کریک ڈاؤن کرکے لیبیا میں کشتی کےحادثے میں ملوث بدنام زمانہ انتہائی مطلوب 6 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کرلیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ حادثہ 13 اور 14 دسمبر 2024 کی درمیانی شب پیش آیا تھا جس میں 44 پاکستانیوں کو ریسکیو کیا گیا تھا، کشتی لیبیا کے علاقے تبروک سے یونان جا رہی تھی۔

ریسکیو کیے گئے پاکستانیوں میں کئی کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں جو ابھی 18برس کے بھی نہیں ہوئے ہیں۔ یونان میں پاکستان کے سفارت خانے نے زندہ بچنے والے جن47افراد کی فہرست جاری کی ہے اس پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ اس میں 12کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں۔ 14برس کے راحت دلاور اور 15 سال کے محمد صفدر وہ خوش قسمت ہیں جنہیں ریسکیو کیا گیا ہے۔

اسی طرح 17سال کے تین،18سال کے چار اور 19برس کے تین لڑکوں کو بھی ریسکیو کیا گیا۔ اس کے علاوہ کشتی میں20سال کے پانچ ،21سال کے دو ، 22 سال کے پانچ ،23سال کے تین اور 24 سال کے تین نوجوان تھے، جن کی جان بچ گئی ہے۔

اب حکّام کی پھرتیوں کا یہ عالم ہے کہ 29دسمبر ، 2024کو انسانی اسمگلنگ میں ملوث عالمی گروہ کے2 ملزمان کو گجرات سے گرفتار کرلیا گیا۔ ایف آئی اےکے مطابق گرفتار ملزمان سے20پاکستانی اور31 غیر ملکی پاسپورٹ برآمد کیے گئے ہیں۔ ملزمان جعلی پاسپورٹ، ویزے اور دیگرغیر قانونی دستاویزات بناتے تھے۔ ان کے قبضے سے امیگریشن کی جعلی مہریں، جعلی پاسپورٹ اور ویزا اسٹیکرز بنانے والی مشینیں بھی برآمد کی گئی ہیں۔

لیکن جب یہی لوگ دھڑلّے سے ملک بھر میں اپنا نیٹ ورک کام یابی سے چلارہے تھے توکوئی ان سے پوچھنے والا نہیں تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ حالاں کہ انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں برسوں سے ملک میں انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رحجان کے بارے میں خبردار کرتی آرہی ہیں، لیکن چند ہفتے قبل تک کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگی تھی۔

انسانی اسمگلرز سیاسی اور مالی اثر و رسوخ کی وجہ سے کھلم کھلالوگوں کی جانوں سے کھیلتے چلے آرہے ہیں۔ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا اور بد عنوانی ان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ ایسے لوگوں کابا آسانی شکار کررہے ہیں جو ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور مفلسی کے شکنجے سے بچنے کے لیے اپنی جان اور مال داؤپر لگانے کو تیار ہیں۔

بد تر اقتصادی حالات اور ذرایع معاش بہت کم رہ جانے کی وجہ سے چند برسوں سے بہت سے ہم وطن بیرونِ ملک ہجرت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جب دن بھر محنت، مشقّت کرنے کے باوجود وہ اپنا اور اہلِ خانہ کا پیٹ نہیں بھرسکتے تو کیوں نہ کہیں اور جاکر قسمت آزمائیں۔

ایسے میں انہیں انسانی اسمگلرز یورپ اور امریکا پہنچانے کے خواب دکھاتے ہیں اور وہاں پُر تعیّش زندگی گزارنے کا جھانسہ دیتے ہیں۔ ان کے جھانسے میں آکر ہمارے سادہ لوح افراد مال کے ساتھ اپنی جان بھی خطرے میں ڈالنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن اب ہمیں جاگنا اور زندگی بہتر بنانے کی آرزو لیے غیر قانونی طورپر دیارِ غیر جانے کی کوشش کرنے والوں کی جانوں کا ماتم کرنے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر کچھ کرنا ہوگا۔

ترکِ وطن کی تاریخ پرانی

حقیقت یہ ہے کہ مختلف وجوہ کے تحت ترکِ وطن کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہر خطّے اور ہر زبان میں اس بارے میں قصّے، کہانیاں اور اشعار موجود ہیں۔ پہلے نقل و حمل کے ذرایع محدود اور سُست تھے، لہٰذا یہ عمل سُست روی کے ساتھ ہوتا تھا، لیکن سائنس کی ترقی نے ترکِ وطن کے تیز رفتار عمل کے لیے راہیں کھول دی ہیں۔ اسی سائنسی ترقی کی وجہ سے معاشرے میں بہت سے ایسے مسائل نے جنم لیا ہے اور ایسے مواقع پیدا ہوئے ہیں کہ لوگ بڑی تعداد میں ترک وطن کرنے لگے ہیں۔ 

اقوام متحدہ کے ادارے گلوبل کمیشن آن انٹرنیشنل مائیگریشن کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ دنیا بھر میں تارکینِ وطن کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ایک جانب یہ مسئلہ پے چیدہ ہوتا جارہا ہے اور دوسری جانب اس عمل سے بہت سے سودمند امکانات بھی جنم لے رہے ہیں۔ 

اس صورت حال کا جائزہ لینے اور اس ضمن میں اقدامات کرنے کی غرض سے دسمبر2003ء میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی ہدایت پر گلوبل کمیشن آن انٹرنیشنل مائیگریشن قائم کیا گیا تھا۔ 

انیس ممالک سے عالمی سطح کا تجربہ رکھنے والے مختلف شعبوں کے اعلیٰ سطح کے ماہرین کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ ممالک اور مسئلے سے متعلق کرداروں کے درمیان اس معاملے پر مباحث کو فروغ دیں، تارکین کے ضمن میں موجود پالیسیز میں موجود خلا کا جائزہ لیں اور ترک وطن اور دیگر عالمی مسائل کے درمیان باہمی تعلق کا تجزیہ کریں اور مناسب تجاویز کے ساتھ رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، حکومتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو پیش کریں۔ چناں چہ ایسا ہی کیا گیا اور کمیشن کی رپورٹ افادۂ عام کے لیے جاری کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال18دسمبر کو تارکین وطن کا عالمی یوم بھی منایا جاتا ہے۔

فلسفے بدل گئے

تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ مختلف زمانوں میں مختلف وجوہ کی بناء پر لوگوں نے ترک وطن کیا۔ ڈیڑھ دو سو برس قبل تک اس کی بنیادی وجوہ جنگیں، تنازعات اور قحط وغیرہ تھیں۔ لیکن عالم گیریت کے عمل نے دنیا کے بہت سے فلسفے تبدیل کردیے ہیں۔ آج مختلف خِطّوں کی ریاستیں، معاشرے، معیشتیں اور ثقافتیں تیزی سے ایک دوسرےکے قریب آرہی ہیں اور اُن کا ایک دوسرےپر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔

نئی ٹیکنالوجیز نے سرمائے، سامان، خدمات، اطلاعات اور خیالات کی ایک سے دوسری جگہ سرعت سے منتقلی ممکن بنادی ہے۔ اسی طرح عالمی اقتصادیات کا دائرہ تیزی سے وسیع ہورہا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے لیے بہتر زندگی گزارنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ تاہم، دوسری جانب عالمی سطح پر یہ بھی تسلیم کیا جارہا ہے کہ عالم گیریت کے دنیا بھر میں اثرات یک ساں طریقے سے مرتب نہیں ہو رہے ہیں۔ 

جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں لوگوں کے معیارات زندگی میں اور انسانی جانوں کے تحفظ کی سطح میں فرق بڑھتا جارہا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے فرق نے ترکِ وطن کے عمل کا دائرہ وسیع اور اس کے لیے مواقع میں اضافہ کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارۂ برائے آبادی کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں 2005ء تک تارکین وطن کی تعداد بیس کروڑ تک جا پہنچی تھی جو 1980ء کے مقابلے میں دگنی تھی۔

آج تارکین وطن دنیا کے ہر خطّے میں موجود ہیں۔ لیکن ترکِ وطن کا کبھی بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تارکین وطن کی مشکلات ختم یا کم ہوگئی ہیں۔ کیوں کہ ترکِ وطن خواہ کسی بھی وجہ سے کیا جائے، بہت سے نفسیاتی، جسمانی، جذباتی، روحانی، سماجی اور معاشی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ 

چناں چہ خواہش، جبر یا ضرورت کے تحت گھر بار، علاقہ اور وطن چھوڑ کر کہیں اور جانے والوں کے لیے زندگی کچھ زیادہ آسان نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں بعض افراد کو مادی آسودگی نصیب ہوجاتی ہو، لیکن روحانی آسودگی حاصل ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ پھر یہ امکان دوسری جانب برقرار رہتا ہے کہ مادّی آسودگی بھی ہر تارکِ وطن کے حصّے میں نہ آئے۔

پُرآسائش زندگی کی خواہش

پرانے زمانے کے لوگ پُرکھوں کے وطن کی مٹی اور اپنی جائے پیدائش کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کے لیے اپنے فوت شدہ بزرگوں کی ہڈیاں چھوڑ کر کسی اور علاقے یا دیس میں جابسنا بہت مشکل امر ہوتا تھا، لیکن زمانے کی گردش نے بہت سی روایات ختم کرکے نئی روایات کو جنم دیا ہے۔ 

اس کی بنیادی وجہ مادّہ پرستی قرار دی جاتی ہے۔ آج کا انسان مادّی ترقی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اس کافلسفہ یہ ہے کہ پُرکھوں کی ہڈیاں اور ان کی روایات سے جُڑے رہ کر اس کا پیٹ نہیں بھر سکتا اور وہ پُرآسائش زندگی نہیں گزار سکتا۔ 

یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ترکِ وطن کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان سے ترکِ وطن کرکے کہیں اور جانے والوں ہی کو لے لیں۔ کئی برس قبل کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تقریباً بتیس لاکھ پاکستانی قانونی طور سے اور پینتیس ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ لیکن آزاد ذرائع یہ تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ کوئی بھی انسان، حتیٰ کہ جانور بھی اپنا آشیانہ آسانی سے نہیں چھوڑتا، لیکن اسے کیا کہیے کہ بعض اوقات روشن مستقبل کی اُمّید یا مجبوریاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ لوگ ترکِ وطن پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ترک وطن کا پہلا نشانہ رشتے دار اور دوست احباب بنتے ہیں کیوں کہ اس عمل کے نتیجے میں ان سے بچھڑنے کے جاں گسل لمحات آجاتے ہیں، مگر یہ خواہشات اور مجبوریاں ہیں، جو دنیا کی کل آبادی کے تین فی صد حصّے یا پندرہ کروڑ افراد کو ان کے وطنِ مالوف سے دورکسی اور ملک میں رہنے پر مجبورکیے ہوئے ہیں۔ 

محنت کشوں کی عالمی تنظیم آئی ایل او کے مطابق ان میں سے آٹھ کروڑ افراد نے صرف روزگار کے لیے اپنا وطن ترک کیا ہے اور وہ مائیگرینٹ ورکرز ہیں۔ ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق 1997ء میں افریقا میں دو کروڑ، شمالی امریکا میں ایک کروڑ ستّر لاکھ، وسطی اور جنوبی امریکا میں ایک کروڑ بیس لاکھ، ایشیا میں ستّر لاکھ، خلیج وسطیٰ میں نوے لاکھ اور یورپ میں تین کروڑ مائیگرینٹ ورکرز مصروف عمل تھے۔ 

دوسری جانب آئی ایل او کا کہناہے کہ مختلف ممالک میں لوگوں کو شہریت دینے کے عمل کو روز بہ روز پے چیدہ اور مشکل بنائے جانے کی وجہ سے دنیا بھر میں انسانوں کی اسمگلنگ کا عمل بڑھتا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں آئے روز بہت سے افراد اور خاندان مختلف مشکلات اور صدمات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

بڑھتی ہوئی انسانی اسمگلنگ

آج ہمارے لاکھوں نوجوان بے روزگار پھررہے ہیں۔ آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی منہگائی، خوراک کا بڑھتا ہوا عدم تحفظ اورروزگار کے ذرایع کی شدید کمی نے انہیں غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ 

ایجنٹ انہیں کنٹینرز میں باندھ دیتے ہیں یا بھری ہوئی کشتیوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ اپریل2022سے اب تک آٹھ، نو لاکھ پاکستانی ملازمتوں کے لیے بیرون ملک جاچکے ہیں۔

متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت اور اسمگلرز کے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اوراقتصادی صورت حال کا کام یابی سے فایدہ اٹھانے کی وجہ سے چند برسوں سے انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق، مرد، خواتین، بچے اور خواجہ سرا بھی انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ پہلے ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں، انسانی اسمگلنگ کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعدادچھ تھی، لیکن2022میں یہ تعداد بڑھ کر 217تک پہنچ گئی تھی جوکہ حیرت انگیز اضافہ ہے۔

ایف آئی اے کی ریڈ بُک کے مطابق بیش تر انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کا تعلق گجرات اور گوجرانوالہ سے ہے۔ بعض انسانی اسمگلر سیالکوٹ، راول پنڈی، منڈی بہاء الدین اور آزاد جموں وکشمیر سےتعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایجنٹ لوگوں کو تھوڑی رقم میں دوسرے ممالک بھیجنے کا جھانسا دیتے ہیں اور ان سے پیسے لے کر انہیں کسی دوسرے ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔

محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں سرگرم عمل انسانی اسمگلرز اس غیر قانونی کاروبار سے تقریباً 15کروڑ ڈالرزتک سالانہ کماتے ہیں۔ حالیہ حادثے میں متاثر ہونے والے ایک شہری نے ایف آئی اے کو بیان دیا ہےکہ ایجنٹ نے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچانے کے لیے 40، 40لاکھ روپے طلب کیے تھے، بھاؤ تاؤ کے بعد معاملہ35لاکھ روپے فی کس میں طے پایا تھا۔

بیان کے مطابق ایجنٹ نے گاؤں والوں سے کہا تھا کہ وہ لوگوں کولیبیا سے کشتی کے ذریعے پہلے یونان اور پھر اٹلی پہنچائے گا اور یہ سفر محفوظ ہوگا، اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اس شہری کے مطابق اس کے بیٹے نے لیبیا سے اسے کال کر کے بتایا تھا کہ یہاں سے اٹلی پہنچانے کے پانچ ہزار ڈالرز لیتے ہیں اور پاکستان میں موجود ایجنٹس کا لیبیا کے ان ایجنٹس کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے۔ اس کے بہ قول غیر قانونی تارکینِ وطن کے رش کے سبب ڈیڑھ، دو ماہ تک باری نہیں آپاتی جس کی وجہ سے لوگ لیبیا میں کیمپوں میں بھوکے، پیاسے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی صورت حال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ میں غیر قانونی ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کی شرح گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسانی اسمگلنگ کے لیے ایک ذریعے، راہداری اور منزل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں2023 تک، چار برسوں میں ملک بھر سے انسانی اسمگلنگ کے80ہزار سے زاید واقعات سامنے آئے تھے اور متاثرین میں بیش تر خواتین اور بچّے ہیں۔

یہاں سے انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان کا جغرافیہ اور کئی ممالک سے منسلک اس کی طویل سرحدیں بھی ہیں۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد نوسو کلومیٹر طویل ہے، جہاں سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس کی سرگرمیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں،کیوں کہ صرف تافتان کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان امیگریشن کا مرکز ہے اور وہاں بھی سہولتوں کا فقدان ہے۔

پاکستان میں بلوچستان سے ایران، پھر ترکی اور وہاں سے یونان، یہ ایک روایتی راستہ رہا ہے اور جب اسمگل کیے جانے والے افراد مطلوبہ ملک (بہ شمول یورپی ممالک) پہنچ جاتے ہیں تو وہاں موجود ایجنٹس انہیں اُن کی مرضی کی منزلوں پر بھیج دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ بلوچستان کی سرحد پر ایران میں مند بیلو کا علاقہ انسانی اسمگلرزکے زیر استعمال ہے۔ ایران سے سالانہ تقریباً 15 ہزار اورعمان سے لگ بھگ سات، آٹھ ہزار پاکستانیوں کو گرفتارکرنے کے بعد ملک بدر کر کے پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے۔ تاہم انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی سالانہ مجموعی تعداد کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی اعداد و شمار جمع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

پاکستان اس غیر قانونی عمل سے شدید طور پر متاثر ہوا ہے، یہاں سے نہ صرف انسانی اسمگلنگ ہوتی ہے، بلکہ اس سرزمین کو گزرگاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بنگلا دیش، سری لنکا، برما اوربھارت سے خواتین، بچوں اور مردوں کو غیر قانونی طور پر خلیجی ممالک، ترکی، ایران اور یورپ میں اونٹوں کی دوڑ، جسم فروشی اور جبری مشقت کے لیے ہوائی، سمندری اور زمینی راستوں سے اسمگل کیا جاتا ہے۔

افغانستان کے باشندوں کو بھی مغربی اور خلیجی ممالک کی طرف اسمگل کرنے کے لیے پاکستان کو راہ داری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان 2400 کلومیٹر طویل سرحد پر صرف چمن اور طورخم کے مقام پر دو امیگریشن پوسٹس ہیں۔

آرام دہ زندگی یا موت کا سفر

غیر قانونی طور پر ممالک کی سرحدیں عبور کرنے کے دوران راستے میں ویران اور پہاڑی راستوں پر بھوک پیاس، چوٹ لگنےاور کشتیاں اُلٹنے سے اموات ہونا معمول ہیں اور کئی افراد تو سرحد عبور کرتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کسی مرحلے پر اُن کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔ غربت، تنگ دستی اور بے روزگاری سے تنگ سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنے والوں کے لیے یہ سفر زندگی اور موت کا سفر بن جاتا ہے۔

حالیہ حادثے میں بچ جانے والے بعض افراد نے اپنے گھر وڈیو پیغامات ارسال کیے ہیں۔ ان وڈیوز میں انہوں نے اس سفر میں پیش آنے والی مشکلات کی تفصیلات بھی بتائی ہیں اور دیگر لوگوں سے اپیل کی ہے کہ آئندہ کوئی اس راستے سے یورپ جانے کی کوشش نہ کرے۔ زندہ بچ جانے والے21سالہ ہارون اصغرنے دو وڈیوز یونان کے دارالحکومت ایتھنز کے نواحی علاقے، مالا کاسا کیمپ، میں ریکارڈکی ہیں جہاں کشتی کےحادثے میں زندہ بچ جانےوالے پاکستانیوں کو رکھا گیا ہے۔ 

ایک وڈیو میں گجرات سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان کہہ رہا ہے کہ پاکستان میں بہت مشکل حالات تھے۔ وہاں سے بھاگ کر لیبیا آئے۔ یہاں آکر بھی لگ بھگ ڈیڑھ سے دو ماہ ایجنٹس کے ہاتھوں تکالیف برداشت کیں۔ لیبیا کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتا ہے کہ وہاں کھانا میسر تھا اور نہ پانی دیا جاتا تھا۔اضافی لباس بھی ساتھ نہیں تھے اور نہ کسی کےپاس فون کرنے کی سہولت تھی۔

لیبیا سے یورپ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے تو وہ ٹھیک نہیں تھی۔ اس کا انجن خراب تھا اور اس میں کمیونی کیشن کے لیے لگا ہوا سسٹم اور جی پی ایس بھی کام نہیں کر رہے تھے۔ کشتی چلانے والا اناڑی تھا۔ راستے میں اس نے ایک کارگو جہاز والوں سے کہا کہ ان مسافروں کو اپنے ساتھ لے جاو۔ کارگو جہاز میں بیٹھنے کے عمل کے دوران ہی ہماری کشتی الٹ گئی۔ کارگو جہاز والوں نے ہمیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن ہمارا سب کچھ پانی میں ڈوب گیا۔

سیالکوٹ کے رہائشی ایک نوجوان نے وڈیو پیغام میں بتایا کہ وہ 10 اور 11دسمبر کی درمیانی شب لیبیا سے روانہ ہوئے تھے۔ ان کے بہ قول سمندری سفر پر روانہ ہونے سے قبل موسم چیک کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ سمندر میں حالات بہت خراب تھے۔ 

طوفانی لہریں بار بار آ رہی تھیں۔13اور14دسمبر کی درمیانی شب کشتی کو حادثہ پیش آیا۔ نارووال کے مکین ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ لیبیا سے یورپ جانے کی کوشش کررہے تھے ۔ یونان کے قریب کشتی کو حادثہ پیش آیا۔ سمندری لہریں بہت تیز تھیں۔ تین دن سمندر میں کھلے آسمان تلے گزارنے پڑے۔

حادثے میں بچ جانے والےدیگر پاکستانیوں کے مطابق سمندر میں حالات بہت خراب تھے، جہاز میں 84 افراد تھے، حادثے میں درجنوں پاکستانی ہماری آنکھوں کے سامنے سمندر میں ڈوب گئے۔ جس کشتی پروہ سوار تھے اس کا انجن ٹھیک تھا، نہ واکی ٹاکی اور نہ ہی اسے چلانے والا ٹھیک تھا۔

حادثےکے بعد کارگو شپ نے لوگوں کو بچایا۔ ہمارے کپڑے، موبائل اور جوتے سب وہاں رہ گئے، اب ہمارے پاس کپڑے ہیں اور نہ ہی جوتے۔ متاثرین اس وقت یونان کےکیمپ میں مقیم ہیں۔ وہ لوگ پاکستان سے لیبیا پہنچے تھے۔ وہاں سے 11دسمبرکو کشتی سفر پر نکلی تھی۔

دوسری جانب یونان میں پاکستان کے سفیر، عامر آفتاب قریشی کے مطابق کشتی کےحادثے میں درجنوں پاکستانی اب بھی لاپتا ہیں، ریسکیو آپریشن جاری ہے، مگر لوگوں کےبچنےکی امیدیں کم ہیں۔ واضح رہےکہ لیبیا سے غیر قانونی طریقے سے جانے والی5کشتیوں پر پاکستانی سوار تھے۔ کشتیوں کو حادثہ ضرورت سے زیادہ افراد سوار ہونےکی وجہ سے پیش آیا۔