متعددشرپسند،تخریب کار،پاکستان دشمن عناصر، خوارج یا دہشت گرد، انہیں کوئی بھی نام دیں،آئے روز یہ لوگ سرچ آپریشن میں ملک کے سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں ۔اسکے باوجود حملہ آور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ امن معاہدے اور امن کمیٹی کی یقین دہانیوں کے باوجود ضلع کرم کے علاقے بگن میں ہفتے کے روز 40سے50کی تعداد میں مسلح افراد نے سرکاری مذاکراتی ٹیم پر فائرنگ کردی۔اس حملے میں ڈپٹی کمشنر سمیت تین پولیس اور دو فرنٹیئر کور کے اہل کار گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوگئے۔یقیناً حملہ آوروں کو جائے واردات تک پہنچنے کی سہولت حاصل ہے،تاہم یہ بات واضح ہے کہ یہ سب کچھ فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے کیلئے کیا جارہا ہے۔حکومت اور سیکورٹی ذرائع نے واضح کردیا ہے کہ آئندہ کسی بھی قسم کے پرتشدد واقعات کو پوری قوت سے روکا جائیگا اور یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ علاقے کے مکینوں کو آپس میں متحد ہوکر رہنا ہوگا۔خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس حملے کو حکومت کی امن وامان کی کوششیں سبوتاژ کرنے کی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی شرمناک کوشش قرار دیا ہے۔آمدہ اطلاعات کے مطابق ڈپٹی کمشنر پر حملہ کرنیوالے 5شرپسندوں کی شناخت کرلی گئی ہے۔اس واقعہ میں سہولت کاروں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں،جن کیخلاف مقدمہ درج کرکے گرفتاری اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جائیگی ۔اس حوالے سے آئی جی پولیس خیبرپختونخوا کی سربراہی میں سیکورٹی اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔بلاشبہ، یہ سب اقدامات اپنی جگہ اہم ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ ملک دشمن قوتوں نے جس غرض سے یہ حملہ کرایا ،دوبارہ علاقے میں کشیدگی پیدا ہونے اور خوراک و ادویات کے بحران کی کسی بھی صورت میں اسےکامیاب نہیں ہونا چاہئے۔