• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج حامد میر پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لئے وزیراعظم کے اعلان کردہ کمیشن کی کارروائی شروع ہو جائے گی۔ اس دوران ایک ہفتے میں ہم پہ جو بیت گئی،اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری۔ اچھی خبر تو بس ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ بالآخر یہ طے ہو گیا کہ ہم سب کی دعائیں حامد میر کے ساتھ ہیں اور ہماری تلواریں...کس کے ساتھ ہیں؟ یہ ایک نازک سوال ہے۔ دیکھئے دعائوں سے تو ہم تشبیب کا کام لیتے آئے ہیں۔ قصیدہ اس کے بعد شروع ہوتا ہے... اور ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ کسی کے پاس جادو کی چھڑی تو نہیں کہ پیچیدہ معاملات پلک جھپکتے میں حل کر دیئے جائیں۔ ہمارے پروفیسر ابراہیم فرماتے ہیں کہ ابھی تو طالبان کے حقیقی مطالبات بھی سامنے نہیں آئے۔ فرمایا کہ بارہ برس پر پھیلی ہوئی جنگ ہے، اس کے لئے مذاکرات صرف چند ماہ میں کیسے نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔ کیسی صاف اور پتے کی بات ہے۔ ابھی ہمارے امتحان کا دورانیہ بھی طے نہیں ہوا۔ نیز پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ پرویز مشرف ملک سے باہر گئے تو وزیراعظم کا گریبان پکڑیں گے۔ بسر وچشم، ضرور پکڑیئے مگر یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی کہ پرویز مشرف مارشل لا لگائے تو وزیراعظم نواز شریف کا گریبان پکڑا جائے ،اسے اٹک کے قلعے میں رکھا جائے ،اسے پابجولاں کوچہ و بازار میں تماشا بنایا جائے پھر برسوں جلاوطن رکھا جائے ۔ عوام اسے ووٹ دے کر پھر سے وزیراعظم بنائیں تو اسی نواز شریف کو چتائونی دی جائے کہ اب پکڑو پرویز مشرف کو ،اور اگر اسے نکلنے دیا تو تمہارا گریبان پکڑیں گے۔ اس دوران میں جماعت اسلامی ایم ایم اے کا حصہ بنے، حکومتیں بنائے، سترہویں آئینی ترمیم میں پرویز مشرف کا ساتھ دے اور جماعت اسلامی کا دامن بے داغ اور بے شکن قرار پائے۔ پروفیسر ابراہیم اور ان کے قبیلے کی شان بلند ہے۔نواز شریف کی قسمت ہی نارسا ہے ۔وہ ووٹ کے ذریعے حکومت میں آتا ہے اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ووٹ کو تقدیس حاصل نہیں ہے۔تقدیس کی عزت تو اس ملک میں ان کے حصے میں لکھی گئی جو جمہوریت کی بخشی ہوئی آزادیوں کی مدد سے جمہوریت کی جڑیں کاٹتے ہیں۔ ایک قدسی طبع بزرگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہیں 12اکتوبر سے کئی روز پہلے حکومت کا تختہ الٹنے کا فرض سونپا گیا تھا جسے انہوں نے دل و جان سے پورا کیا۔ ان کے صبر کی کمان تو تب ٹوٹی جب انہیں فیصلہ سازی سے باہر رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک ریٹائرڈ عبقری ہیں کہ پچیس برس پہلے منتخب وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو اپنے دفتر میں طلب کرتے تھے اور اب کوئٹہ جا کر اعلان فرمایا ہے کہ وہ جمہوریت سے بغاوت کرتے ہیں۔کچھ باخبر لکھنے والے اشارے کنائے میں یہ بتاتے ہوئے پھولے نہیں سماتے کہ وزیراعظم صاحب کو گوادر میں سیلوٹ نہیں کیا گیا۔ یہ تو طاقت کی شان ہے۔ کئی برس پہلے ایک صاحب نے تو واہگہ جانے ہی سے انکار کر دیا تھا کہ واجپائی صاحب کو سیلوٹ کرنے کی نوبت نہ آئے۔ یاد رہے کہ واہگہ میں سیلوٹ نہ کیا جائے تو کھٹمنڈو میں مصافحے کے لئے چل کر جانا پڑتا ہے۔ لاہور میں ایک فرشتہ صورت بزرگ ہیں کہ برسوں جمہوریت کے خلاف آتش زیرپا رہے اور پرویز مشرف صاحب کے زریں دور میں ایک سہانی صبح اعلان کیا کہ اب وہ جہاد کے بجائے خود کو فلاح انسانیت تک محدود رکھیں گے۔ ہماری خوش نصیبی کہ اب وہ پھر میدان میں اترے ہیں اور جمہوریت پہ یلغار کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ارادے تو حضرت مولانا طاہرالقادری کے بھی بلند ہیں۔ انہوں نے تنبیہ الغافلین انگلی لہرا دی ہے ۔ گیارہ مئی کو عمران خان کے ہمراہ ملک بچانے نکلیں گے ۔ گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں۔ صاحب سوال یہ ہے کہ اگر آندھیاں اسی طرح اٹھتی رہیں تو وطن کے چہرے پر بہت سی گرد بیٹھ جائے گی۔ لیلائے وطن سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کے خدوخال کو سنوارا جائے۔
سیانوں نے تاریخ پڑھنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بیان کیا ہے کہ واقعے کی تفصیلات میں الجھنے کے بجائے اسے وسیع تر تناظر میں رکھا جائے۔ تاریخ شناسی ہاتھی دانت پر میناکاری نہیں، دریا کا رخ سمجھنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ گزشتہ برس پرویز مشرف صاحب کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا شور اٹھا تو بہت سے سمجھدار دماغوں نے دبے لفظوں میں سمجھایا کہ یہ مشق بارآور نہیں ہو سکے گی۔ یہ محض پرویز مشرف کی ذات کا معاملہ نہیں ۔ یہ ہمارے جسد اجتماعی میں موجود ناسور کی کہانی ہے۔ عجلت پسندی سے کام لیا گیا یا ذاتی تفاخر کا مسئلہ بنایا گیا تو ناتواں جمہوریت کا بھرم خراب ہو گا۔ اس قضیے سے ملک میں دہشت گردی اور معیشت کے اہم تر سوالات میں کوئی سلجھائو پیدا نہیں ہو گا۔ تحمل کا مشورہ دینے والوں کو بزدل سمجھا گیا۔ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ بچوں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو تو والدین اسے اپنی ناک کا مسئلہ نہیں بناتے۔ ہمارے ملک میں تو وہ لوگ موجود ہیں جنہیں زکام کی شکایت ہو تو اپنی ناک نہیں کاٹتے، قوم کو چھینک آجائے تو جمہوریت کا بستر گول کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اقتدار کے ایوانوں میں امیر کالا باغ کے طرز جبروت سے شیفتگی پائی جاتی ہے تو غلام گردشوں میں بھی میجر رشید وڑائچ کی روح بھٹک رہی ہے ۔منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے۔ ایسے ہی رویوں کا نتیجہ ہے کہ حشر اٹھ چکا ہے۔ وزیرستان میں ایک افسر سمیت تین فوجی جوان شہید ہوئے ہیں۔ کراچی میں مسجد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پشاور کے ایئرپورٹ پر راکٹ گرائے گئے ہیں۔ صحافیوں کی غفلت اور بے اعتدالی سے ملک کی توہین ہوئی ہے تو ہمارے جوانوں کا لہو بہنے سے تو قوم کو کہیں زیادہ تشویش ہونی چاہئے۔ مختلف شہروں میں جلوس نکال کر قومی سلامتی کا جھنڈا بلند کرنے والے بے حد قابل احترام ہیں لیکن انہوں نے پانچ ہزار سے زیادہ فوجی جوانوں کی شہادت پر جلوس نکالنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ان معروضات کا مقصد کسی ایک فریق کو درست یا غلط قرار دینا نہیں۔ گزارش صرف یہ ہے کہ ہم نے سیاسی خط تقسیم کے دونوں طرف رخنے پیدا کر دیئے ہیں۔ ہمیں کوئی شبہ نہیں کہ ریاست طالبان کے ضمن میں درپیش خطرات سے پوری طرح آگاہ بھی ہے اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے لیکن ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ مغربی سرحدوں پر پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ مشرقی سرحدوں کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کئے بغیر ممکن نہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ سیاسی قیادت اور قومی سلامتی کے اداروں کے ایک صفحے پر ہونے کی بات تو کی جاتی ہے لیکن باخبر حلقے بھی یہ نہیں جانتے کہ اس صفحے پر دراصل لکھا کیا ہے۔ تجارت کی راہیں کھولے بغیر معیشت کیسے استوار ہو گی؟ معاشی بدحالی کو دور کئے بغیر انتہا پسندی کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا؟ جمہوریت کے ساتھ وابستگی میں تزلزل پایا جائے گا تو پیچیدہ مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لئے درکار قومی یکجہتی کیسے پیدا ہو گی۔ دنیا بھر سے بیگانگی پیدا کر کے صرف خلیجی بادشاہتوں کے بل پر جمہوریت کیسے مستحکم ہو گی؟ حامد میر کے افسوسناک واقعے سے صرف یہ طے پایا ہے کہ ہماری اجتماعی نفسیات میں قومی نصب العین کے بارے میں یکسوئی نہیں ہے۔ ہماری دعائیں حامد میر کے ساتھ ہیں…مگر یہ طے نہیں پایا کہ ہماری تلواریں کس کے ساتھ ہیں۔
تازہ ترین