• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی نظام کو عدم استحکام کی طرف دھکیلتی سیاسی کشا کش ،معاشی نا ہمواریوں سے جنم لینے والی خرابیوں اور معیشت کو لاحق خطرات وہ تکلیف دہ حقائق ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مقامی اور بیرونی قرضے ماضی میں حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے ذمے ان قرضوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ نومبر 2024 تک ان کا حجم 70 ہزار 366 ارب روپے رہا جس میں مقامی قرضہ 48 ہزار 585 ارب روپے اور بیرونی قرضے کا حصہ 21 ہزار 780 ارب روپے تھا جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ ایک سال (دسمبر 2023 سے نومبر 2024) کے دوران قرضوں میں 6 ہزار 975 ارب کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ حکومت کو بھاری بھر کم قرضے مسلسل لینے پڑ رہے ہیںاور ان پر انحصار مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹیکسوں کا ناروا بوجھ ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ،بجلی اور گیس کے نرخ عوام الناس کے اعصاب پر سوار ہیں۔ ایسے میں حکومت کو اپنے وسائل کے اندر رہنے کے بارے میں سوچنا ہو گا ۔ قرضوں سے نجات کیلئے ٹھوس پالیسی اپنانا ہو گی۔ اسٹیٹ بینک کی دستاویز کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر 2024) کے دوران مرکزی حکومت کے قرضوں میں ایک ہزار 452 ارب روپے جبکہ نومبر کے ایک مہینے میں ایک ہزار 252 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم کے اقدامات اور بیانات یہ واضح کرتے ہیں کہ مالیاتی اشاریے بہتر ہوئے ہیں لیکن وفاقی حکومت کے ذمے قرضوں کے اعداد و شمار میں یہ اچھی تصویر مبہم دکھائی دیتی ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں ماہرین کی قومی کانفرنس بلا کر سنگین اقتصادی مسائل کا پائیدار حل تلاش کیا جائے۔

تازہ ترین