• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے برطانوی سامراج کی جن نشانیوں کو ابھی تک سینے سے لگا رکھا ہے ان میں سے ایک بیٹ مین یا اردلی کا تصور ہے۔ اسے آپ فوجی افسروں کا باوردی خدمت گار کہہ سکتے ہیں۔ Orderlyیا Batmanفوج کا نہایت اہم حصہ سمجھے جاتے تھے۔ فوجی افسروں کے کتوں کو ٹہلانا ،بچوں کو اسکول لیکر جانا، صاحب کی وردی تیار رکھنا، جوتے چمکانا، یہ سب کام اردلی کے فرائض میں شامل ہوا کرتے تھے۔ جب تاج برطانیہ نے امیر افغانستان دوست محمد خان کو شکست دیکر کابل فتح کیا تو انگریز فوجی افسروں کے ساتھ خدمت گاروں کی فوج یہاں بھیجی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ساڑھے سولہ ہزار فوجی افسروں اور جوانوں کی خدمت کیلئے لگ بھگ 38000ہزار اردلی تعینات تھے۔ سی آئی اے میں انسپکٹر جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دینے والےJohn H Waller اپنی تصنیف Beyond The Khyber Passکے صفحہ نمبر 159پر لکھتے ہیں کہ 1839ء کے آخر میں کابل کی فوجی چھائونی میں موجود انگریز افسروں کی بیگمات اور خدمت گاروں کی کلکتہ سے کابل آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ افغان جن کا خیال تھا کہ برطانوی فوج کا یہاں قیام عارضی ہوگا اور وہ شاہ شجاع کو تخت پر بٹھا کر واپس لوٹ جائیں گے ،انہیں اب یہ بات واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی کہ انگریزوں کی نیت اس ملک میں طویل عرصہ تک قیام کرنے کی ہے اور افغانستان پر قبضہ عارضی نہیں بلکہ مستقل ہے۔ جلد ہی برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی۔ 23دسمبر 1841ء کی دوپہر برطانوی ریزیڈنٹ میکناٹین کا سر کاٹ کر نیزے کی نوک پر پیوست کردیا گیا اور کابل شہر میں گھمایا گیا پھر میکناٹن اور کیپٹن Trevorکی لاشوں کو کابل مین بازار میں نشان عبرت کے طور پر لٹکا دیا گیا۔الیگزینڈر برنز کے بعد اب سر ولیم ہے، میکناٹین کے یوں مارے جانے سے، تاج برطانیہ کا غرور خاک میں مل گیا اور فرنگی فوج کے رہے سہے حوصلے بھی پست ہو گئے۔ کمپنی سرکار کی فوج نے 6جنوری 1842ء کی صبح نو بجے پسپائی اور رسوائی کے اس سفر کا آغاز کیا جسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کابل سے نکلنے والے لشکر میں 700برطانوی فوجی ،میکناٹین کی بیوی اور لیڈی سیل سمیت 34گوری خواتین اور انکے بچے، بنگال انفنٹری کے 2000سپاہی، بنگال کیولری کے 250جوان، ارریگولر ہارس کے 1150فوجی،شاہ شجاع کی فوج کے 400سپاہی اور کم و بیش 1200کیمپ فالور یعنی خدمت گار شامل تھے۔ لگ بھگ چھ ہزار کے اس لشکر میں سے صرف ایک شخص کیپٹن ڈاکٹر ولیم بریڈن بچ کر جلال آباد گیریژن پہنچنے میں کامیاب ہو سکا۔بہر حال یہ تفصیل بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت کے فوجی افسر اپنے بیٹ مین پر کس قدر انحصار کیا کرتے تھے۔ اردلی کلچر برطانیہ ہی نہیں فرانس اور جرمنی سمیت کئی ممالک کی افواج میں مقبول رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر میں یہ رجحان ختم ہو گیا مگر بھارت اور پاکستان میں بری فوج کے افسروں کو باوردی خدمت گار مہیا کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کی توجیہہ یہ پیش کی جاتی رہی کہ اگر فوجی افسروں کے گھروں میں سویلین خدمت گار تعینات ہوں گے تو عسکری کلچر سے نابلد ہونے کے باعث انواع و اقسام کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر حساس معلومات بھی لیک ہو سکتی ہیں۔ بھارت میں تو مسلسل اردلی کلچر کے خلاف بات ہوتی رہی ہے۔ بھارتی فضائیہ اور بحریہ میں تو بیٹ مین کی سہولت بہت پہلے ختم کردی گئی تھی مگر بری فوج جس میں اردلی کو سہائیک کہا جاتا ہے، اس کے حوالے سے کئی بار یہ تجویز سامنے آئی کہ سامراجی دور سے جڑی اس روایت کو ختم کر دیا جائے۔ مارچ2017ء میں بھارتی ریاست مہا راشٹر میں اردلی کی ڈیوٹی کر رہے ایک فوجی اہلکار نے افسروں کے نارو اسلوک کی ویڈیو پوسٹ کی جو بہت وائرل ہوئی اور اس کے بعد اس اہلکار کی لاش ملی جس کے بعد اس بحث نے نیا رُخ اختیار کر لیا۔ وزیر دفاع سبھاش بھامرے کو راجیہ سبھا میں کہنا پڑا کہ فوجی افسروں کو مدد کیلئے فراہم کیے جانے والے سہائیک بھی فوج کا حصہ ہوتے ہیں انہیں ذاتی ملازم نہ سمجھا جائے۔ اس سے پہلے وزیر دفاع اے کے اینٹونی نے بھی پاررلیمنٹ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ یہ سلسلہ بہت جلد ختم کر دیا جائے گا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ اچانک بیٹ مین کا ذکر کہاں سے آ گیا۔ دراصل سابق وزیر اعظم عمران خان نے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف پر پھبتی کسی ہے کہ وہ محض ایک کٹھ پتلی اور آرمی چیف کے اردلی ہیں۔ بانی تحریک انصاف کے مطابق شہباز شریف سے کہیں زیادہ طاقتور وزیر اعظم تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں شوکت عزیز تھا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر جگت بازی کا ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو انہوں نے بیان دیا تھا کہ فوج کو پتہ ہے میں چھٹی نہیں کرتا ۔چونکہ اردلی کو اپنی مرضی سے چھٹی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے ان کے سیاسی مخالفین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ اردلی کون ہوا؟ بلاشبہ شوکت عزیز بہت بااختیار اور طاقتور وزیر اعظم تھے، لیکن ان کی طاقت کا منبع عوام نہیں تھے اور ان کا منتخب وزرائے اعظم کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں عمران خان چاہیں تو مو جودہ حکومت کا اپنے دور سے موازنہ کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سربراہ حکومت کا منصب اتنا ہی بے توقیر ہو گیا ہے تو جناب عمران خان ایک بار پھر اردلی بننےکیلئے ایڑی چوٹی کا زور کیوں لگا رہے ہیں؟ کیونکہ انہیں اس بات سے کوئی پریشانی نہیں کہ وزیر اعظم کی حیثیت اردلی جیسی ہو گئی ہے، انہیں یہ گلہ ہے کہ بھرپور خدمت گزاری ،فرض شناسی اور تابعداری کے باوجود انہیں اردلی کے منصب سے کیوں ہٹا دیا گیا۔ تو جناب اردلی فوجی افسر کی منشا و مرضی کے مطابق تعینات ہوتا ہے، بعض اردلی چند سال نہیں نکال پاتے اور کچھ بیٹ مین ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے صاحب سے جڑے رہتے ہیں۔ بسا اوقات ریٹائرمنٹ کے بعد راہ و رسم رکھنے والے صاحب احتساب کی زد میں آجاتے ہیں تو اردلی کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

تازہ ترین