بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس گرامین بہت کچھ سوچ رہے ہیں، بنگلہ دیش کے انقلابی نوجوانوں نے انہیں ملک کا سربراہ اس لئے بنایا کہ وہ ان کی رہنمائی میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے سرکاری طور پر ملک کا بانی شیخ مجیب الرحمٰن کی بجائے جنرل ضیاء الرحمٰن کو قرار دیا ہے۔ جو 1971ء میں پاکستانی فوج میں بنگالی میجرتھے،یہ بعد میں آرمی چیف بنے اور تختہ الٹ کر حکومت سنبھالی، خالدہ ضیاء انہی کی اہلیہ ہیں۔ ڈاکٹر یونس گرامین چٹاگانگ یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد تھے، وہ بنگلہ دیش کو غربت کی کوکھ سے نکالنا چاہتے تھے، قیام بنگلہ دیش کے بعد انہوں نے گاؤں کی غریب عورتوں کو قرضہ دینا شروع کیا تاکہ ان کی معاشی حالت بہتر ہو سکے۔ 1976ء میں سرکاری جنتا بینک نے جونہی ڈاکٹر یونس کے ادارے کو قرضے دینے کی ہامی بھری تو دوسرے بینک بھی قرضہ دینے لگے۔ 1983ء میں اس ادارے کو باقاعدہ بینک بنا دیا گیا، اس کا نام ’’گرامین بینک‘‘ (دیہاتی بینک) رکھا گیا۔ 2007ء تک اس بینک نے 74لاکھ لوگوں کو 6.38ارب ڈالر کا قرضہ جاری کیا۔ 80ء کی دہائی کے آخر میں نئے پراجیکٹس کے طور پر مچھلیوں کے تالاب اور ٹیوب ویل لگائے گئے، گرامین بینک کے تحت سافٹ ویئر، سائبر، نیٹ ویئر سمیت گرامین فون جیسے ادارے قائم کیے گئے۔ گرامین بینک سے قرضہ حاصل کرنے والوں میں خواتین کی شرح 94فیصد ہے، بنگلہ دیش کی خواتین کی زندگیوں میں انقلاب لانے والے ڈاکٹر محمد یونس گرامین کو 2006ء میں نوبل انعام دیا گیا۔ جب سے ڈاکٹر یونس گرامین ملک کے سربراہ بنے ہیں، وہ اس فکر میں ہیں کہ بنگلہ دیش کی انڈسٹری تو ٹھیک ہے مگر بنگلہ دیش کے کسانوں کی زندگیوں میں کیسے تبدیلی لاؤں؟ انہوں نے دنیا کے مختلف ماڈلز کو جانچا اور پرکھا، بالآخر انہیں ایک ماڈل پسند آیا جو پاکستان میں جنوبی پنجاب میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ ڈاکٹر یونس نے اپنی ٹیم کے اہم رکن ڈاکٹر فیض سے کہا کہ ’’آپ اس کامیاب ماڈل کی تمام تفصیلات لیں اور رابطہ کریں‘‘ جنوبی پنجاب میں یہ ماڈل میاں فاروق احمد چلا رہے ہیں میاں فاروق احمد خانیوال کے رہنے والے ہیں، ڈاکٹر ہیں، ان کے والد بھی ڈاکٹر تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل میاں فاروق احمد کا شمار پنجاب کے بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے، ایک زمانے میں انہوں نے منو بھائی کے ساتھ مل کر ’’رہائی‘‘ نام کی تنظیم بنائی تھی، جو ہنوز چل رہی ہے۔ یہ تنظیم جیل میں قید بچوں کو نہ صرف رہا کرواتی ہے بلکہ ان کے تعلیمی اخراجات ادا کر کے انہیں مفید شہری بھی بناتی ہے۔ تنظیم سے وابستہ لوگ کئی ایسے قیدیوں کی رہائی بھی کرواتے ہیں جو جرمانے ادا نہیں کر سکتے، جن کے مچلکے دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اسی دوران انہوں نے ایسے لوگوں کیلئے دستر خوان سجایا جو سکت نہیں رکھتے تھے، رمضان المبارک میں ایسا انتظام کیا کہ لوگ روزے رکھ سکیں، انہوں نے دو تین شہروں میں سحری و افطاری کا سلسلہ شروع کیا، اب یہ کام دنیا کے 73شہروں میں ہوتا ہے۔ دستر خوان چلانے والے میاں فاروق احمد کی نگاہوں میں کچھ ایسے لوگ بھی آئے جو سفید پوش تھے مگر حالات کا کمبل انہیں ڈھانپ نہیں رہا تھا، اب وہ کئی یتیموں اور بیواؤں کی چوکھٹ پر صبح سویرے سورج طلوع ہونے سے پہلے ماہانہ راشن پہنچا دیتے ہیں۔ صبح سویرے کا مقصد صرف ایک ہے کہ کسی کو پتہ نہ چلے تاکہ ان کی سفید پوشی پر حرف نہ آئے۔ اب اس کام کا ذکر کرتے ہیں جو ڈاکٹر یونس گرامین کو بنگلہ دیش کیلئے بہت پسند ہے، ایک روز میاں فاروق احمد تونسہ کے ایک گاؤں میں گئے، دیہاتیوں کی غربت نہ دیکھی جا سکی تو ارادہ کیا کہ غریب کسانوں کیلئے کچھ ایسا کیا جائے کہ وہ غربت سے نکل آئیں۔ وہ خانیوال آئے، انہوں نے اپنے آدمیوں کو بٹھایا اور چھوٹے کاشتکار (جن کی زمین 1سے 5 ایکڑ تک ہو) کیلئے ایک پیکیج بنایا، پیکیج میں شامل اشیاء کی ترتیب یوں رکھی 1۔ نئے اور بہترین بیج کی فراہمی (کیونکہ چھوٹا کسان 20 سال پرانا بیج استعمال کر رہا تھا)۔ 2۔ کھاد کی تین بوریاں (جس میں ایک بوری کھاد، بیج ڈالنے سے پہلے زمین کی ہمواری کے وقت استعمال ہو اور باقی دو بوریاں جب فصل جوان ہو رہی ہو)۔ 3۔ زرعی ادویات کا ایک اسپرے۔ یہ پیکیج چھوٹے کاشتکاروں کو دیا جاتا ہے، جن کی فصل پہلے فی ایکڑ 28سے 30من ہوتی تھی، اب وہ 60 سے 64من ہوتی ہے، فصل آنے پر چھوٹا کاشتکار پیکیج کی رقم واپس کر دیتا ہے۔ میاں فاروق احمد عام دیہاتیوں کو تین بکریاں بھی دیتے ہیں، جب ان بکریوں کے بچے ہو جائیں تو ان میں سے دو بچے آدھی قیمت پر واپس لیتے ہیں۔ یہ وہ ماڈل ہے جو چھوٹے کسانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر رہا ہے۔ ڈاکٹر یونس گرامین اس ماڈل سے بہت متاثر ہیں، انہوں نے میاں فاروق احمد اور ان کی ٹیم کو مارچ میں بنگلہ دیش مدعو کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر یونس گرامین اس ماڈل کو اپنا کر بنگلہ دیشی کسانوں کی کایا پلٹنا چاہتے ہیں۔ بقول اقبال
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھُونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں