• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

یہ 1970ء تھا جنوری کا مہینہ تھا جب میں بس پر بیٹھ کر پشاور اور پشاور سے بائی ایئر کابل گیا جان لیوا سردی تھی اس کے بعد کابل سے آئس لینڈ تک بسوں، ٹرینوں اور لفٹ لیکر ایئر آئس لینڈ کی سستی ترین ٹکٹ کے طفیل نیو یارک اور پھر وہاں سے سینٹ لوئیس پہنچ گیا۔اگر آپ کی جیب میں کچھ نہیں ہے تو پھر کسی ایسی جاب کی ضرورت ہوتی ہے جس میں تین وقت کا کھانا اور سر چھپانے کے لئے جگہ مل جائے ۔ میرا ماڈل ٹائون کا دوست طارق بخاری سینٹ لوئیس ہسپتال میں پارٹ ٹائم جاب کررہا تھا اس نے اپنی میڈم کو بتایا کہ پاکستان سے ایک اور ’’بھاڑو‘‘ آیا ہے اور وہ آپ کے عظیم الشان ہسپتال کو صرف ’’روٹی، کپڑا اور مکان ‘‘ کے عوض اپنی خدمات پیش کرنے پر تیار ہے وہ بہت بڑا اسکالر ہے اور اسے بہت مشکل سے بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر رضامند کیا ہے چنانچہ اگلے روز ایک بہت موٹی میڈم سے ملاقات طے ہوئی اس سے ہونے والے سوال وجواب کی تفصیل درج ذیل ہے ۔

WHAT IS YOUR NAME

ATA UL HAQ QASMI

آٹا ؟ATA

(عطاء )NO, ATA

آٹا، OK MR

YOUR QUALIFICATION?

MASTER DEGREE

IN LITERATURE

WOW, GREAT ASSET FOR US

چنانچہ اس وقت مجھے ایک منصب جلیلہ پر فائز کر دیا گیا اور اس منصب جلیلہ کو بلڈٹیکنیشن کہا جاتا تھا جس کا کام کسی مرتے ہوئے مریض کی جان بچانے کے لئے فوری طور پر اس کے بلڈ گروپ کا نمبر متعین کرنا ہوتا ہے میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ کس بکواس چیز کا نام ہے بہرحال تیر تکے سے کام تو چلا لیا مگر اس دن سے امریکہ کے ہیلتھ سسٹم پر سے میرا ایمان اٹھ چکا ہے ۔پہلے دن صبح کو میں ہسپتال کی طرف سے دیئے گئے کمرے سے نکل کر ناشتے کے ہال میں آیا وہاں ٹائم کی پابندی تھی کہ اتنے بجے ناشتہ شروع ہو گا اور اتنے بجے بند ہو جائے گا میں نے ٹرے میں اپنا ناشتہ لیا اور کوئی خالی ٹیبل تلاش کرنے لگا ایک ٹیبل نظر آئی جس کے گرد تین کرسیاں تھیں ان میں سے ایک پر ایک حسینہ اور دوسری پر ایک منحوس بیٹھا تھا اور دونوں محو گفتگو تھے بلکہ یہ منحوس باتیں کر رہا تھا اور وہ صرف سن رہی تھی میں نے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی غرض سے نہیں بلکہ محض اس ماہ وش کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے لئے کرسی گھسیٹی اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا جی تو چاہتا ہے کہ میں آپ کو اپنی جوانی کے نین نقش کی تفصیل بتائوں اور یہ بھی کہ مجھے دیکھتے ہی وہ حسینہ مجھ پر عاشق ہو گئی تھی یا میں عاشق ہو گیا تھا مگر نہیں سو حقیقت صرف ا تنی ہے کہ اس کا رنگ وروپ مشرقی تھا کالے بال، کالی آنکھیں مجھے اس کی قربت اچھی لگی اور اسے یہ بات بھی اچھی لگی کہ ایسے مواقع پر میری ماہرانہ گپ شپ کی وجہ سے منحوس اٹھ کر چلا گیا اور اسے پتہ تھا کہ اگر آج نہیں تو کل اب اس کی دال نہیں گلے گی۔اس رات جب میں اپنے کمرے میں آکر سویا تو گوروں کے رنگ میں مجھے وہ اردو غزل یاد آنے لگی اور میں صبح کا انتظار کرنے لگا صبح سب سے پہلے جو لوگ ناشتہ گاہ میں پہنچے وہ میں اور وہ حسینہ نہیں اب میں اسے غزالہ کہوں گا وہ اپنے خود طریق سے امریکن لگی غزالی آنکھیں، کالے بال، کالی آنکھیں چہرہ سفید اور گندمی رنگ کی آمیزش سے خوبصورتی میں مزید اضافہ کرنے والا ،اس روز ہم سب سے پہلے ناشتے کی میز پر بیٹھے اور اس وقت اٹھے جب ہمیں اٹھا دیا گیا اور ایسا روز ہونے لگا اس دوران ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے میں نے اس دور میں انگریزی میں نظمیں بھی کہیں جو میں بستر کے برابر کی دیوارپر لکھ دیا کرتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ مجھے ایک اور جگہ جاب مل گئی جس میں تنخواہ بھی ملتی تھی مگر ہمارا میل جول جاری رہا سینٹ لوئیس میں سی پی ریور میں چاند کی چودھویں رات کو ایک شپ چلتا تھا جس میں نوجوان لورز چاندنی رات اور دریا کی لہروں کے علاوہ ڈنر بھی کرتے تھے ڈانس پارٹی بھی ہوتی تھی اور پھر وہ عرشے پر جاکر اپنے ارد گرد کی خوبصورتیوں کو سمیٹتے تھے میں نے چودھویں کے چاند پر اپنی اور ’’غزالہ‘‘ کی بکنگ کروائی میں نہ پینے پلانے کا شوقین نہ ڈانس کا چنانچہ کھانا کھا کر ہم عرشے پر چلے گئے وہاں کئی چاند چہرے تھے لڑکے لڑکیاں یہاں بھی ناچ رہے تھے مگر یہ عجیب ڈانس تھا کہ بس ایک دوسرے سے چپکے ہوئے تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہچکولے سے کھانے لگتے ’’غزالہ‘‘ کبھی ان کو اور کبھی مجھے دیکھتی مگر میں تو آسمان کے چاند اور اپنے برابر والے چاند کو دیکھنے میں محوتھا ۔دریں اثنا میں نے محسوس کیا کہ ’’غزالہ‘‘ میرے بہت قریب آگئی اور اس انداز سے آئی کہ اپنا سانس رکتا محسوس ہوا میں نے نرمی سے اسے خود سے الگ کیا مگر تھوڑی ہی دیر بعد وہ میرے گھٹنوں کے قریب بیٹھ گئی اور ابھی اس نے تھوڑی سی پیش دستی کی تھی کہ میں نے اسے بالوں سے کھینچ کر اوپر اٹھایا اور ایک زناٹے کا تھپڑ اس کے گال پر مارا اس کے بعد یہی ہونا تھا کہ مجھے چاند، دریا، ’’غزالہ‘‘ سب زہر لگنے لگے ۔میں جہاز سے نکلتے ہی تیز تیز قدم اٹھاتے ہو ئے کار کی طرف بڑھا اور اسے اس کے گھر ڈراپ کر دیا اس نے اترتے وقت شدید نفرت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور اترتے ہوئے کار کا دروازہ پوری قوت سے بند کیا۔اس کے بعد میں نے اس سے میل جول مکمل طور پر ختم کر دیا ہسپتال کی نوکری کے بعد میں نے اور میرے ایک دوست نے ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا تھا ایک دن بیل ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ’’غزالہ‘‘ کھڑی تھی دروازے کے سامنے میرے دوست کا بیڈروم تھا ’’غزالہ‘‘ نے نفرت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور دوست کے بیڈروم میں داخل ہو گئی اس رات میں بہت دیر تک سو نہ سکا۔(جاری ہے)

تازہ ترین