• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں ....

دنیا بَھر میں صحت کی سہولتوں کی فراہمی شہریوں کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ترقّی یافتہ ممالک میں عوام کے علاج معالجے کے لیے ہر سال ایک بڑا بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ نیز، مختلف بیماریوں کے علاج دریافت کرنے کے ضمن میں تحقیق پر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ 

نیز، علاج معالجے میں جدّت کے ساتھ بیماریوں سے بچاؤ کے اقدامات بھی کیے جاتے ہیں تاکہ عوام صحت مند رہیں کہ صحت مند اقوام ہی صحت مند معاشرے تشکیل دیتی اور اپنے مُمالک کو ترقّی کے رستے پر گام زن کرتی ہیں۔ 

دوسری جانب، ترقّی پذیر ممالک میں صحت کا شعبہ نظرانداز کرنے کی روش عام ہے اور بدقسمتی سے پاکستان بھی اُنہی ترقّی پذیر ممالک میں شامل ہے، جہاں صحت کبھی بھی حُکم رانوں کی اوّلین ترجیح نہیں رہی۔ حُکم ران ایسا کوئی ادارہ قائم کرنے پر توجّہ نہیں دیتے، جس پر وہ خود بھی اعتماد کریں اور بیماری کی صُورت وہاں سے رجوع کرسکیں، جب کہ جو تھوڑا بہت بجٹ صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا بھی جاتا ہے، اُس کے درست، موزوں استعمال پر بھی توجّہ نہیں دی جاتی، نتیجتاً بجٹ کا ایک بڑا حصّہ تو خورد برد ہی کی نذر ہو جاتا ہے اور باقی رہ جانے والی رقم عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔

گزشتہ سالوں کی طرح سال2024 ء بھی پاکستان میں صحتِ عامّہ کے ضمن میں قطعاً حوصلہ افزا نہیں رہا، خاص طور پر پولیو کے حوالے سے تو انتہائی مایوس کُن رہا کہ اس دوران مُلک کے طول وعرض میں 70بچّے پولیو وائرس سے متاثر ہوئے۔ پاکستان میں1974 ء سے پولیو ویکسی نیشن کا سلسلہ شروع ہوا، یعنی 2024ء میں اس پریکٹس کے50 سال مکمل ہو گئے، لیکن ایسی کوئی جامع حکمتِ عملی یا عملی اقدامات سامنے نہ آئے، جن سے اس مرض کا مکمل خاتمہ ممکن ہوتا۔ 2024 ء میں پاکستان میں پولیو کے 70 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 27 بلوچستان، 21 خیبر پختون خوا، 20سندھ اور ایک، ایک کیس پنجاب اور اسلام آباد سے رپورٹ ہوئے۔2023ء کے 6کیسز کے مقابلے میں 2024ء کے 70 کیسز بلاشبہ ایک بہت بڑا اضافہ ہے، جس نے پاکستان کو پولیو کے خاتمے کے قریب لاکر ایک بار پھر بہت دُور کر دیا۔

پاکستان میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر ایک، دو سال کیسز کی تعداد میں کمی آئے، تو اگلے سال یک دَم بہت زیادہ کیسز رپورٹ ہوجاتے ہیں۔2020ء میں پاکستان میں پولیو کے 84کیسز سامنے آنے کے بعد 2021ء میں صرف ایک کیس سامنے آیا تھا، لیکن 2022ء میں پھر 20کیسز سامنے آگئے۔ 2023ء میں اس تعداد میں دوبارہ کمی ہوئی اور 6کیسز سامنے آئے،لیکن 2024ء میں پھر 70کیسز سامنے آگئے۔ 

پاکستان کو بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح شروع ہی سے پولیو وائرس کا سامنا رہا، تاہم مُلک میں پولیو کیسز کا مکمل ریکارڈ موجود نہیں، لیکن اگر گزشتہ سترہ سالوں کا ریکارڈ دیکھا جائے، تو اس دَوران1417بچّے وائرس سے متاثر ہوئے۔ 2008ء میں 118،2009ء میں 89، 2010ء میں 144، 2011ء میں 198، 2012ء میں 58،2013 ء میں 93، 2014 ء میں 306،2015 ء میں 54،2016 ء میں 20،2017 ء میں 8، 2018ء میں 12 ، 2019ء میں 147،2020 ء میں 84، 2021ء میں1 ، 2022 ء میں20 ، 2023ء میں6 اور2024 ء میں پولیو کے 70کیسز رپورٹ ہوئے۔ 

پولیو کیسز میں ہول ناک اضافہ،70بچّے متاثر ہوئے، کرپشن، جان بوجھ کر کام نہ کرنے کا تاثر مضبوط ہوا، ورکرز سہولتوں سے محروم رہے

اِس دوران شر پسند عناصر کی جانب سے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والے ورکرز پر قاتلانہ حملے کیے جاتے رہے، جن میں 74سے زاید ورکرز اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ حکومت اپنی ناقص پالیسیز میں تبدیلی اور احتسابی عمل سخت کرنے کی بجائے پولیو وائرس کی موجودگی کا ذمّے دار بچّوں کو قطرے پلوانے سے انکاری والدین ہی کو ٹھہراتی رہی۔

البتہ تلخ حقیقت یہی ہے کہ اِس مہم میں فرنٹ لائن ورکرز سب سے زیادہ محنت کرتے ہیں اور سب سے زیادہ متاثر بھی وہی ہوتے ہیں۔ 74 ورکرز نے قاتلانہ حملوں میں اپنی جانیں گنوا دیں، لیکن پھر بھی وہ سال بَھر بچّوں کو پولیو ڈراپس پلا تے رہے، حالاں کہ اُن کی تن خواہوں اور مراعات میں گزشتہ سال بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ سخت گرمی میں اُنہیں پینے کا پانی تک میسّر نہیں ہوا۔ پولیو مہمّات اور فریکشنل ڈوز آف ان ایکٹی ویٹڈ پولیو وائرس ویکسین لگانے کے باوجود بھی ماحول میں پولیو وائرس موجود رہا، جس کی ایک بڑی وجہ مہمّات کے دَوران ہدف پورا کرنے سے متعلق غلط رپورٹنگ بھی ہے۔ 

اضلاع کی جانب سے مہمّات کے دَوران پوری ٹیمز فیلڈ میں نہیں اُتاری گئیں، جب کہ ٹیمز پر میڈیکل آفیسرز/ ڈاکٹرز کی بجائے مالی، ڈرائیور، وارڈ سرونٹ اور آیاؤں سمیت ریٹائرڈ و غیر متعلقہ افراد تعیّنات کیے جاتے رہے۔ غلط رپورٹنگ کے ذریعے ہدف حاصل کرنے کے دعوے اور رقم مبیّنہ طور پر اپنی جیبوں میں ڈالی جاتی رہی اور اِسی طرح کے رویّوں سے عوام میں یہ تاثر زور پکڑتا جارہا ہے کہ پولیو وائرس کو خود زندہ رکھا جارہا ہے کہ اگر یہ وائرس ختم ہوگیا، تو بین الاقوامی فنڈنگ ختم ہو جائے گی اور بھاری رقوم افسران کی جیب میں نہیں جاسکے گی۔

پاکستان، دنیا بَھر میں ٹی بی کے مریضوں کے اعتبار سے پانچویں اور ملٹی ڈرگ ریزیسسٹنٹ ٹی بی کے مریضوں کے ضمن میں چوتھے نمبر پر ہے۔ سال 2024ء میں بھی پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں کمی نہ آسکی۔ 

عالمی ادارۂ صحت، پاکستان میں ٹی بی کے پھیلاؤ اور مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کی وجوہ تشخیص میں تاخیر، معالجین کی جانب سے غیر موزوں ادویہ کی تجویز، کم زور فالو اَپ چیک اپس اور سوشل سپورٹ پروگرام کے فقدان کو قرار دیتا ہے، تاہم اِس مرض کے پھیلاؤ میں شعبۂ صحت کے کم زور نظام کا بھی بڑا ہاتھ ہے، جس کی مضبوطی کے لیے حکومتیں سنجیدہ نظر نہیں آتیں۔ 

حکومت کی جانب سے قومی و صوبائی انسدادِ ٹی بی پروگرام کو سالانہ اربوں روپے کا بجٹ دیا جاتا ہے، جب کہ گلوبل فنڈ کی جانب سے بھی اربوں روپے کی معاونت فراہم ہوتی ہے۔ نیز، مختلف بین الاقوامی تنظیمیں بھی مدد کے لیے پیش پیش رہتی ہیں، لیکن بجٹ کا درست اور موزوں استعمال ایک بڑا مسئلہ ہے۔’’ٹی بی پروگرام‘‘ کے مراکز مختلف اسپتالوں میں قائم ہیں، جہاں مریضوں کے لیے اربوں روپے کی ادویہ خریدی جاتی ہیں، لیکن عام مشاہدہ یہی ہے کہ ان مراکز پر ادویہ کا فقدان رہتا ہے اور مطلوبہ ادویہ باہر سے خریدنی پڑتی ہیں، جو منہگی ہونے کے باعث مقرّرہ ڈوز پوری کرنے سے قبل ہی چھوڑ دی جاتی ہیں، جس سے ادویہ کے خلاف مزاحمتی ٹی بی پیدا ہو جاتی ہے۔’’ٹی بی پروگرام‘‘ کی جانب سے2024ء میں بھی تشخیصی سہولتوں کا نظام بہتر نہیں کیا گیا، جب کہ عوامی آگہی کے اقدامات کا بھی فقدان ہی رہا۔

ہیپاٹائٹس، ٹی بی میں اضافہ ریکارڈ

’’قومی ایڈز کنٹرول پروگرام‘‘سے حاصل شدہ اعداد وشمار کے مطابق، پاکستان میں اندازاً 3لاکھ 30ہزار افراد ایچ آئی وی(ایڈز) میں مبتلا ہیں، جن میں سے 72 ہزار 515 کو اپنے مرض کا علم ہے اور ان میں سے 49ہزار 939کا علاج مُلک بَھر میں قائم مراکز میں جاری ہے۔

گزشتہ برس، پاکستان میں ایڈز کے حوالے سے یوں اچھا رہا کہ کوئی بڑا آؤٹ بریک سامنے نہیں آیا، لیکن تخمینہ لگائے گئے مریضوں کو تلاشنے کا کام سُست رہا۔2023ء میں ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 63ہزار 202تھی، جب کہ 2024ء میں ان کی تعداد 75ہزار 515 ہوگئی۔

یوں پورے سال صرف12ہزار313مریضوں کی تشخیص ہوئی۔ تخمینہ لگائے گئے ڈھائی لاکھ سے زائد افراد تاحال اپنے مرض سے لاعلم ہیں اور معاشرے میں گھوم پِھر رہے ہیں، جن سے یہ مرض دیگر افراد تک پھیل رہا ہے۔ ماہرینِ صحت کے مطابق جنسی بے راہ روی، استعمال شدہ سرنجز، غیر محفوظ انتقالِ خون، استعمال شدہ بلیڈز اور دانتوں کے اوزاروں سے یہ مرض ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہو رہا ہے، اِس لیے جن افراد میں اِس مرض کی تشخیص ہوئی ہے، اُن کے اہلِ خانہ اور دوستوں وغیرہ کے ٹیسٹ بھی کروائے جائیں تاکہ تخمینہ لگائے گئے مریض رجسٹرڈ ہو سکیں اور اُن کا علاج کیا جاسکے۔

مچھر بیماریاں پھیلاتے رہے، سدّ ِباب کے اقدامات کا فقدان رہا

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، پاکستان کی عام آبادی میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی شرح بہت کم ہے، لیکن سرنج سے نشہ کرنے والے افراد میں شرحِ پھیلاؤ سب سے زیادہ ہے۔ ان کے بعد خواجہ سراؤں اور مرو و خواتین سیکس ورکرز میں یہ شرح نمایاں ہے۔

قومی ایڈز کنٹرول پروگرام نے2025ء تک ایڈز کے نئے انفیکشنز کی شرح میں کمی لانے کا عزم کر رکھا ہے، لیکن اِس میں خاطر خواہ کام یابی ہوتی نظر نہیں آتی کہ 2024ء بھی گزر گیا اور اب قومی پروگرام کی پانچ سالہ حکمتِ عملی کا آخری سال شروع ہو چُکا ہے، لہٰذا متعلقہ اداروں کو’’عالمی یومِ انسدادِ ایڈز‘‘ منانے کے ساتھ، بہتر حکمتِ عملی کے ذریعے پوشیدہ مریضوں کو تلاشنا ہوگا۔ 

دوسری جانب،’’ایڈز کنٹرول پروگرام‘‘ کے تحت جو مریض رجسٹرڈ ہیں اور جن کا مُلک بَھر کے 94مراکز پر علاج معالجہ جاری ہے، وہاں ادویہ کی بہتر فراہمی پر بھی توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔ نیز، اِن مراکز پر موجود عملے کی اخلاقی تربیت ناگزیر ہے کہ ایڈز کے مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک کی شکایات عام ہیں۔پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ، بیس لاکھ سے زائد ہے، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

پاکستان پہلے ہی ہیپاٹائٹس کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور ماہرین متنبّہ کررہے ہیں کہ اگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا، تو مُلک پہلے نمبر پر آجائے گا۔ 2024ء میں بھی ہیپاٹائٹس کی شرح میں کمی نہیں لائی جاسکی اور بالغ آبادی میں اس کی شرحِ پھیلاؤ 11.55فی صد رہی۔ 

ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ استعمال شدہ سرنجز ہیں، جب کہ مُلک میں آٹو لاک سرنجز کے استعمال کے احکامات کے باوجود استعمال شدہ سرنجز کا استعمال جاری رہا۔ صوبوں کے ہیلتھ کیئر کمیشنز اِس حوالے سے خاموش نظر آئے، جب کہ ڈرگ اتھارٹیز بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کر پائیں۔حکّام نے 2030ء تک مُلک سے ہیپاٹائٹس کے خاتمے کا وعدہ کر رکھا ہے، تاہم اِس ضمن میں ٹھوس اقدامات کا فقدان ہے۔ 2024ء میں بھی ڈینگی، ملیریا اور چکن گونیا کے ہزاروں کیسز رپورٹ ہوئے، لیکن مچھروں کے خاتمے کے اقدامات نظر نہیں آئے۔

کراچی میں چکن گونیا نے اپنے پنجے گاڑے رکھے اور ہزاروں افراد اس سے متاثر ہوئے۔ تاہم، صوبائی محکمۂ صحت کے حکّام چکن گونیا سے انکاری رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تشخیص شدہ کیسز کی تعداد کم ہے، لیکن ان کے دعووں کے برعکس، مریضوں کی تعداد بہت زیادہ رہی، کیوں کہ تشخیصی سہولت منہگی ہونے کے باعث ڈاکٹرز علامات کے ذریعے ہی مرض کا علاج کرتے رہے۔ 

دنیا بَھر میں مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں کی روک تھام کے لیے جہاں مچھروں کے خاتمے کے اقدامات کیے جاتے ہیں، وہیں اِس امر کی بھی تحقیق کی جاتی ہے کہ مخصوص مچھروں کو کیسے کم کیا جائے۔ اِس حوالے سے ملائیشیا، سنگاپور، ویت نام اور انڈونیشیا نے کام یاب تجربات کے ذریعے ڈینگی مچھروں کی صلاحیت ختم کی، لیکن پاکستان میں تحقیق تو درکنار، 2024ء میں بھی صفائی ستھرائی، گندگی کے خاتمے، لارواسائیڈیل ایکٹیویٹی اور اسپرے مہم کا نام و نشان بھی نظر نہ آیا۔ 

ایڈز زدہ ڈھائی لاکھ افراد ’’بم‘‘ بنے پِھرتے رہے، مریضوں کی رجسٹریشن میں ناکامی

ماہرین امراضِ اطفال کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عُمر کے27 فی صد بچّوں کی اموات کا سبب ایسی بیماریاں ہیں، جن پر حفاظتی ٹیکوں کی مدد سے قابو پایا جاسکتا ہے۔اِن ٹیکوں کی مدد سے دنیا میں ہر سال تقریباً30 لاکھ بچّوں کی زندگیاں بچائی جاتی ہیں۔ بچّوں کی اموات کی بڑی وجہ بننے والی بیماریوں میں پولیو، خسرہ، تشنّج، کالی کھانسی، گردن توڑ بخار، ڈائریا، روٹا وائرس اور نمونیا وغیرہ شامل ہیں۔ 

حفاظتی ٹیکے پانچ سال سے کم عُمر بچّوں کو مفت لگائے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود، یہ ٹیکے نہ لگوانے سے ہر سال ہزاروں بچّے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بھی اربوں کا بجٹ ہونے کے باوجود حفاظتی ٹیکوں کی شرح میں اضافے کی کوششیں ناکافی رہیں۔یاد رہے، اِس ضمن میں بین الاقوامی ادارے بھی فنڈنگ کرتے ہیں۔پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے کے مطابق،1991 ء میں حفاظتی ٹیکوں کی شرح86 فی صد تھی، جو اب کم ہوکر53.8 فی صد ہوگئی ہے۔

سندھ میں 2024ء میں بھی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں داخلوں کا پرچہ لیک ہوا، جس پر طلبا و طالبات اور ڈاکٹرز تنظیموں نے احتجاج کے ساتھ، عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے نتائج منسوخ کرکے دوبارہ پرچہ لینے کے احکامات دیئے اور دسمبر میں دوبارہ پرچہ لیا گیا۔ اِس سے نہ صرف پڑھائی کے قیمتی ماہ ضائع ہوئے بلکہ محنت کے ذریعے امتحان میں نمایاں نمبرز حاصل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی کہ اُنھیں نقل مافیا کے باعث دوبارہ تیاری کرکے امتحان دینا پڑا۔

اگر 2023ء کا پرچہ لیک ہونے کی بروقت تحقیقات کرکے ملوّث افراد کے خلاف کارروائی کی جاتی، تو طلبہ کو گزشتہ برس پریشانی نہ اُٹھانی پڑتی۔ صحت کے حوالے سے وفاقی بجٹ میں2023 -24 کے مقابلے میں 2024-25ءکے لیے صرف ایک ارب کا اضافہ کیا گیا، جو مُلک میں بیماریوں کے بڑھتے بوجھ اور صحت کی سہولتوں کے لحاظ سے ناکافی ہے۔

نیز، بجٹ میں بیماریوں سے بچاؤ اور صحت کے منصوبوں پر سرے سے بات ہی نہیں کی گئی، صرف مختص رقم بتائی گئی، جسے شعبۂ صحت سے وابستہ افراد نے افسوس ناک قرار دیا۔ سندھ حکومت نے جی ایس ٹی آن سروسز 15فی صد اسپتالوں اور کلینکس کی خدمات پر عائد کیا، جس کی نجی اسپتالوں کی ایسوسی ایشن نے مذمّت کرتے ہوئے اسے مریضوں پر براہِ راست بوجھ قرار دیا۔

مجموعی طور پر سال 2024ء بھی پاکستان میں صحت کے حوالے سے مایوس کُن رہا۔ ماؤں اور نوزائیدہ بچّوں کی شرحِ اموات میں کمی نہیں لائی جاسکی، صحت کی جدید سہولتوں کی فراہمی کے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ بچّوں میں غذائی قلّت دُور کرنے، حاملہ خواتین کو گھروں پر ادویہ کی فراہمی، علاج میں جدّت، ڈاکٹرز کی تعداد میں اضافے، نرسز، پیرامیڈیکس کی کمی دُور کرنے، بنیادی صحت کے نئے مراکز، ڈسپینسریز، اسپتالوں اور زچگی مراکز کے قیام کا بھی فقدان رہا۔ 

اتائیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور وہ عوام کی جانوں سے کھیلتے رہے، لیکن صوبائی ہیلتھ کیئر کمیشنز غفلت میں ڈوبے رہے۔2024ء میں بھی صوبوں کی جانب سے صحت کے مختلف منصوبوں کا اعلان کیا گیا، لیکن پہلے سے جاری منصوبوں کو بھی پائیۂ تکمیل تک پہنچایا نہیں جا سکا۔