• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وڈیرے نے کی چار بیٹیاں غریب کی اغوا

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
ظلم کرنے کی جو ظالم کو اجازت ہو گی
جان لوگوں کی نہ ہرگز بھی سلامت ہو گی
ظلم اتنا ہی کرو جتنا ہو سہنا ممکن
ہاتھ ہم نے جو اٹھایا تو شکایت ہو گی
ظالم کے ظالمانہ رویوں کا ذکر کریں کہ انہوں نے غربا پرہر دم ہی ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یا پھر ان کی سلطنت میں رہنے والے انسان تو کیا جانور بھی محفوظ نہیں۔ ان کا مقصد صرف بے بس و غربا پر ظلم روا رکھنا ہے جس سے ان کی پیاسی روح کو سکون ملتا ہے اور نہ جانے یہ بھڑاس نکال کر ان کی کون سی شیطانی رگ کی تسکین ہوتی ہے۔ ظلم پر ظلم کرتے جانا ان کی گھٹی اور خو میں شامل ہے۔ اس سے بھی بڑا ستم یہ کہ ان کی رسی دراز کرنے میں ظلم سہنے والوں کا قصور ہے، انسانیت کے اداروں کا قصور ہے جو ان ظالموں کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے۔ بزرگ شہری کی چار بیٹیاں اغوا ہوئے عرصہ ہوگیا ہے مگر دیکھئے کہ اس کے ساتھ کیسا بھیانک مذاق ہو رہا ہے۔ اس کے غم اور دکھ کا احساس کئے بغیر معاشرے کا پورا ڈھانچہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ وہ اپنی جنگ خود ہی لڑے چلا جا رہا ہے، اس بے چارے کی کیفیت یوں ہے کہ وہ کسی بھی ایسی پوزیشن میں نہیں کہ اپنی لڑائی ان وڈیرہ شاہی سے لڑ سکے یا عدالت سے انصاف لے سکے۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کی بیٹیاں زندہ بھی ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو کس حال میں ہیں، کہیں قید ہیں زنجیروں میں بندھی، یا پھر ان کے گھر والوں کی اور ان کی غلامی میں ہیں اور پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کہیں پر بیچ دی گئی ہوں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تشدد پسند لوگوں نے جبلت میں انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہو، اسی لئے مل کر نہیں دے رہیں۔ کہا اور سنا جا رہا ہے کہ عدالت نے بزرگ باپ کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے اور بنچ بھی تشکیل دیا ہے۔ شکر ہے کہ سماعت ہوئی، دوران سماعت بزرگ علی گل نے حیرت انگیز داستان سنائی کہ پہلے اس کی چاروں بیٹیاں 2017میں اغوا ہوئی تھیں اور 2019میں بازیاب ہوئی تھیں اس نے اس کی رپورٹ اور مقدمہ بھی درج کرایا تھا۔ مگر 2019میں پھر دوبارہ سے اس کی بیٹیاں اغوا ہوئیں اور تب سے اب تک اس کی بیٹیوں کا کچھ پتہ نہیں! کسی کی اولاد یعنی بیٹیوں کے ساتھ ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے مگر غریب بیٹیاں ہیںاس لئے اعلیٰ پیمانے پر کوئی شنوائینہیں اگر کسی صاحب حیثیت شخص کی بیٹیاں ہوتیں تو معلومم نہیں بات کہاں تک پہنچتی اور بہت سے لوگ ان کے احتجاج میں بھی شامل ہو جاتے۔ دوسرا یہ کہ ہوسکتا ہے جیسے آئے روز وڈیروں کی بستی میں غریب لوگوں کی بچیاں اغوا ہو جاتی ہیں اور ان کی دور دور تک کوئی خبر نہیں ہوتی تو گاؤں کی نسبت شہروں میں اس قسم کے واقعات ذرا مختلف نوعیت کے ہوتے ہوں مگر اس قدر ظلم و زیادتی شہروں میں پھر بھی نہیں ہوتی کہ کچھ انسانیت شہری بستی میں ہے ابھی! غور کیجئے کسی کے ایک بچے کو کچھ ہوجائے تو جان پر بن آتی ہے یہاں کسی غریب کی چار بیٹیاں اور اس پر تماشا یہ کہ انہیں کہاں کس حالت میں رکھا ہے، کس جگہ ان کا نام بدل دیا گیا اور کہیں پر کہا جا رہا ہے کہ ان کی کسی بیٹی نے شادی کرلی ہے مگر بقول لڑکیوں کے والد کے انہیں ان کی بیٹیوں سے ملوایا نہیں جا رہا۔ خیر یہ تمام زمینی خدا بنے بیٹھے ہیں مجال ہے انہیں کہ خوف خدا بھی ہو کسی بھی ظلم و زیادتی پر ان کا دل پسیجا ہو۔ حکومت بھی ان کی، رعایا بھی ان کی، یہ کہ مگر ان پر بھی کافی لوگ قلم اٹھاتے ضرور ہیں کہ غربا و بے بس لوگوں کی آواز بن سکیں اور جہاں انا کی رسائی نہیں ہے وہاں تک قلم کی آواز پہنچے ورنہ بہت سے لکھنے والے بھی اپنے قلم کو بکاؤ کر لیتے ہیں کہ:
حق کی خاطر ہے ہماری یہ مسلسل محنت
رب کی نظروں میں ہماری یہ عبادت ہو گی
ہم نے منصف کو ہے اس دیس میں بکتے دیکھا
جس میں انصاف نہیں کیسی یہ عدالت ہو گی
آپ سب ہی جانتے ہیں کہ یہ وڈیرہ شاہی انسان تو کیا جانوروں پر بھی کس قدر ظلم توڑتے ہیں۔ کوئی ظالم وڈیرہ غصے میں بے قابو ہو کر اونٹ کی ٹانگ کاٹ دیتا ہے، کہیں گدھے کو کھیت خراب ہونے پر زخمی کر دیتا ہے، کہیں یہ بھی دیکھا گیا کہ کسی غریب نے وڈیرے کی بیٹی سے شادی کی خواہش کی تو وڈیرے نے اسے آنکھوں سے محروم کردیا یعنی ظالموں نے اس کی آنکھیں ہی نکال دیں۔ سندھ کے انسانوں کا جینا حرام کر رکھا گیاہے اور کتوں کو آزاد چھوڑ رکھا ہے تاکہ جو کسر ان کی طرف سے رہ جائے وہ کتے کاٹ کر پوری کردیں۔ معلوم نہیں ان بزرگ کا عدالت جانے پریہ لوگ کیا حال کریں گے۔
یورپ سے سے مزید