آئین پاکستان میں بہت واضح انداز میں درج ہے کہ ریاست کے تمام اداروں کی پالیسیاں کن اصولوں کی بنیاد پر بنائی جائیں گی۔ افسوس کہ ان اصولوں کی آج تک کسی نے پروا نہیں کی۔ آئین اور آئین کی پاسداری کے متعلق نعرے ہر کسی نے بلند کیے لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت کو دیکھ لیں اس نے اِن اصولوں کے پاسداری کی بجائے اِن کے برعکس ہی کام کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے اور ہمارے لوگوں کا یہ حال ہے کہ ہر طرف مسائل ہی مسائل اور خرابیاں ہی خرابیاں نظر آ رہی ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی ہے جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ آئین پاکستان میں درج ان اصولوں کی بنیاد پر حکومتی پالیساں بنانے کیلئے ایک فریم ورک بنایا جائے جسکے تحت مختلف وزارتوں اور متعلقہ اداروں کو ایک سسٹم کے تحت جانچا جائے کہ آیا پالیسیاں بناتے وقت آئین کے ان اصولوں کی پاسداری کی جارہی ہے یا نہیں۔ اعلیٰ سطحی کمیٹی تو بن گئی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور متعلقہ ریاستی ادارے وہ کچھ آخر کب کریں گے جو آئین پاکستان کا منشاء ہے۔ آئین میں درج ان اصولوں میں سب سے پہلے اصول کا تعلق اسلامی طرز زندگی سے ہے۔ آئین میں لکھا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کیلئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھیں۔ آئین پاکستان معاشرے میں اسلامی اخلاقی شعائر کی پابندی کو فروغ دینے پر بھی زور دیتا ہے۔ آئین پاکستان یہ بھی کہتا ہے کہ مملکت شہریوں کے درمیان علاقائی، نسلی، قبائلی، فرقہ وارانہ اور صوبائی تعصبات کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ آئین میں درج یہ اصول خواتین، بچوں، اقلیتوں سمیت تمام طبقوں کے حقوق کی فراہمی کا وعدہ کرنے کے ساتھ ساتھ سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنانے کا بھی عہد کرتے ہیں۔آئین یہ بھی کہتا ہے کہ بچوں اور خواتین سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے جو ان کی عمر اور جنس کیلئے مناسب نہ ہوں۔ آئین میں یہ بھی درج ہے کہ ریاست عصمت فروشی، قمار بازی اور نشہ آور اشیاء کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشرو اشاعت اور نمائش کی روک تھام کرئیگی۔انہی اصولوں میں عوام کے حقوق اور سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ آئین شراب اور سود کے خلاف بھی بات کرتا ہے۔ جب آئین بنایا گیا اگر اُس وقت سے سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ ان اصولوں کی پاسداری کی جاتی تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔ آئین میں درج ان اصولوں کو پڑھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کسی حکومت، کسی سیاسی جماعت نے ان اصولوں پر عمل درآمد نہیں کیا اور اسی کی وجہ سے ہمارا حال بہت خراب ہو چکا۔ چلیں دیر آید درست آید۔ اگر اب بھی ہماری ریاست اور اس کے تمام ادارے آئین پاکستان کی ان اصولوں کے مطابق پالیساں بنائیں تو نہ صرف لوگوں کے مسائل حل ہوں گے بلکہ ہمارا بحیثیت قوم تیزی سے معاشرتی اور اخلاقی گراوٹ کا سفر بھی رکے گا اور پاکستان کو آخر کار ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے رستے پر گامزن ہونے کا موقع بھی ملے گا جو پاکستان کے قیام کی بنیاد تھی۔