رحمت علی بخش وڑائچ پاکستانی نوجوان ہے، ان دنوں ایک امریکی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے، میرا اس سے وہی تعلق ہے جو ایک چچا کا بھتیجے سے ہوتا ہے۔ مجھے اس بھتیجے سے شروع ہی سے محبت ہے، میں نے اس کو بچپن سے دیکھا پھر اس کی سکول لائف دیکھی، اس نے اپنی سکول کی زندگی میں بھی کھیل سے رشتہ بحال رکھا، جب یہ پاکستان میں تھا تو فٹبال کھیلتا تھا۔ میں نے عملی زندگی گزارنے والوں میں وصی شاہ کو بہت مہذب پایا اور نوجوانوں میں رحمت علی بخش وڑائچ سے مہذب کسی کو نہیں پایا، اس نوجوان کی تربیت بہت شاندار ہوئی ہے، شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہو کہ اس کے خاندان کے افراد تین چار پشتوں سے لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں، علم بانٹ رہے ہیں، زندگی پڑھا رہے ہیں، میں اس کی تربیت کا زیادہ کریڈٹ اس کی والدہ کو دینا چاہ رہا تھا کہ اس نوجوان کے والد بول پڑے ’’اس کو فلاں فلاں چیزیں میں نے سکھائیں‘‘ میں نے ان کی بات اس لئے مان لی کہ انہوں نے اپنے والد کے لہے ایک جملے کی لاج رکھنے کے لئے پندرہ سال مستقل پڑھایا اور اب بھی مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچرز والد کی محبت میں دیتے ہیں۔ دنیا اس پڑھانے والے کو مشہور صحافی کے طور پر جانتی ہے۔ جی ہاں! میں سہیل وڑائچ کا تذکرہ کر رہا ہو۔ ان سے میری دوستی، دھرتی اور بچپن سے ہے، خیر بات ہو رہی تھی، ایک مہذب نوجوان کی، اسی پہ بات کرتے ہیں۔ یہ 2008ء کی بات ہے، جہاز نیویارک سے کیلیفورنیا کے لئے اڑا تو ساتھ نشست پر بیٹھی ہوئی امریکی گوری سے گپ شپ شروع ہوئی، ہم دیسی مسافر سفر میں بھی گپ شپ لگاتے ہیں، خیر! تعارفی کلمات میں وہ مجھے بتانے لگی کہ میں نیویارک کے ایک سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر ہوں اور کیلیفورنیا اس لئے جا رہی ہوں کہ میرا بچہ وہاں پڑھتا ہے، ہاسٹل میں رہتا ہے، میں اس کے پاس دو دن گزارنے جا رہی ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تعلیمی اعتبار سے کیلیفورنیا، نیویارک سے بہتر ہے؟ اس نے غور سے دیکھا اور کہنے لگی،’’جی ہاں! کیلیفورنیا بہت بہتر ہے‘‘۔ آج برسوں بعد مجھے اس خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والی مسافتانہ، دوستانہ گفتگو اس لئے یاد آئی کہ اپنا رحمت علی بخش وڑائچ کیلیفورنیا کی ایک یونیورسٹی میں معاشیات کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ معاشیات کا مضمون رحمت کے جہاں دیدہ والد نے چنا۔ تین ماہ پہلےسفر نصیب امریکا میں تھا، دل چاہا کہ رحمت کو ملوں یا اسے اپنے پاس بلاؤں، خیر! میں نے فون کیا تو اس نے کہا ’’ میں ائر پورٹ پر ہوں اور پانچ دنوں کیلئے فلاں شہر جا رہا ہوں‘‘۔ یوں ہماری ملاقات نہ ہو سکی، میں امریکا سے برطانیہ چلا گیا، جب برطانوی یخ بستہ ہواؤں کے تھپیڑے برسنے لگے تو وطن لوٹ آیا، دسمبر کے آخری عشرے میں پتہ چلا کہ رحمت پاکستان آیا ہوا ہے، میں اس سے ملنے چلا گیا، اس کے ساتھ مختلف معاشروں، ان کی ترقی اور بربادی پر گفتگو ہوئی، معاشیات کے جن ماہرین نے اپنے اپنے سماج کا مقدر بدلا، ان کا بھی تذکرہ ہوا۔ خاص طور پر ڈاکٹر من موہن سنگھ، ڈاکٹر یونس گرامین اور مہاتیر محمد کا ذکر ہوا، کچھ باتیں اور بھی ہوئیں، اچانک میں نے رحمت سے پوچھا، فٹبال کھیلتے ہو؟ اس نے کہا ’’نہیں انکل! اب میں فٹبال نہیں کھیلتا،میں اس لئے فٹبال نہیں کھیلتا کہ ہم یونیورسٹی میں چھوٹی عمر میں پہنچ جاتے ہیں جبکہ امریکی تین چار سال کی تاخیر سے آتے ہیں، وہ جسمانی طور پر ہم سے بڑے ہوتے ہیں، سو اس لئے میں نے فٹبال کو خیر باد کہہ دیا ہے‘‘۔ میں نے پوچھا تو پھر کیا رگبی کھیلتے ہو؟ اس نے کہا ’’نہیں! میں ٹینس کھیلتا ہوں‘‘ پھر اس نے ایسی بات کہہ دی جس کی وجہ سے میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا، اس نے کہا ’’جب میں کھیلنا چھوڑ دیتا ہوں تو میری سوچنے کی صلاحیتیں رک جاتی ہیں‘‘۔ تب مجھے احساس ہوا کہ انسانی زندگی میں کھیل کتنے اہم ہیں۔ اس کی ایک بات مجھے میرے بچپن میںلے گئی، خیال آیا کہ انگریزوں نے برصغیر میں جتنے بھی سکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں بنائیں، ان میں شاندار اور وسیع و عریض گراؤنڈز بنائے، ایک زمانے تک کھیلوں کے سالانہ مقابلے ہوتے تھے، کھیل جسمانی نشو ونما کے علاوہ ذہنی صلاحیتوں کو بھی بڑھاتے ہیں لیکن کھیلوں کے لئے امن ضروری ہے۔ اب ہمارے ہاں زیادہ تر تعلیمی اداروں کے پاس گراونڈز ہی نہیں، ہم کتابی جنونیوں کی صورت میں کند ذہنوں کی فصل تیار کر رہے ہیں جبکہ ترقی امن اور کھیلوں کے بغیر ممکن نہیں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ سیاست کے میدان میں ایک کھلاڑی اپنے سیاسی مخالفین کو تگنی کا ناچ نچوا رہا ہے، سارے مل کر بھی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ عمران خان تمام مخالف بیانیوں کو لمحوں میں دھو کر رکھ دیتا ہے، یہی فرق ہے کھیلنے والوں میں اور نہ کھیلنے والوں میں۔ ایک کھلاڑی لیڈر کے باعث پاکستانی قوم روشن مستقبل کے لئے پر امید ہے کہ
سو سو اب جو پھول اگنے ہیں وہ دنیاوی نہیں ہونگے
تمہارے پیروں کی مٹی چھان کر گملوں میں ڈالی ہے