• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا میں گزشتہ برس نیا صدر منتخب کرنےکے لیے ہونے والے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کام یابی کے فورا بعد پہلی بار دنیا بھر میں سب سے معروف اور سب سے قیمتی کرپٹو کرنسی، بٹ کوائن کی قیمت80 ہزار ڈالرز سے تجاوز کر گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت سے افراد کی نظریں کرپٹو کرنسی پر جم سی گئی ہیں اور اس ضمن میں طرح طرح کے بحث مباحثے ہو رہے ہیں۔ 

یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ برس مارچ کے مہینے میں ایک بٹ کوائن کی قیمت69ہزار امریکی ڈالرز سے زائد ہو چکی تھی اور صرف گزشتہ برس کے دوران بٹ کوائن، کی مالیت میں 80فی صدسے زیادہ ضافہ ہوا تھا۔ سترہ جنوری 2025کو ایک بٹ کوائن کی قدر 101,867.90ڈالرز تک پہنچ چکی تھی۔

ٹرمپ کا اعلان اور اُمّید کی نئی کرن

اس صورت حال کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو اس بات کی امید تھی کہ یہ ڈیجیٹل کرنسی ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی قدر حاصل کرلے گی۔ لیکن شاید انہیں بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ امریکی انتخابات اس معاملے میں کتنا اہم کردار ادا کریں گے، خصوصا ڈونلڈ ٹرمپ۔ یاد رہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکا کو کرہ ارض پر کرپٹو کا دارالحکومت بنائیں گے۔

یہ ان کا ایک اور معروف یو ٹرن تھا۔ انہوں نے دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے کی صورت میں کرپٹو کرنسی کو دل و جان سے اپنانے کے اپنے منصوبے کا گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں اعلان کرتے ہوئے ڈیجیٹل ٹوکن کے سیکڑوں حامیوں سے کہا تھاکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی قیادت میں امریکابٹ کوائن سپر پاور بنے۔

حالاں کہ وہ اس اعلان سے چند یوم قبل تک کرپٹو کرنسیوں کے خلاف تھے۔ وہ انہیں’’تباہی کا منتظر ایک سکینڈل‘‘ مانتے تھے۔ لیکن چند یوم بعد ہی وہ ’’کرپٹو آرمی‘‘ بنانے کا عہد کر رہے تھے۔اس اعلان سے چند یوم قبل ہی ان کی انتخابی مہم چلانے والوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ کرپٹو میں عطیات قبول کریںگے جن میں بٹ کوائن، ایتھر اور ڈوگیکوئن شامل ہیں۔

ٹینیسی کے شہر نیش ویل میں بٹ کوائن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ نہ صرف امریکا کو 'کرہ ارض کا کرپٹو دارالحکومت بنائیں گے بلکہ حکومت کےپاس موجود کرنسی کا استعمال کرتے ہوئے بٹ کوائن اسٹریٹجک ریزرو بھی بنائیں گے، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین ،گیری جینسلر کو ہٹا دیں گے اور کرپٹو ایڈوائزری کونسل بنائیں گے۔یاد رہے کہ گیری جینسلر وہ امریکی عہدے دار ہیں جنہوں نے2021میں تعیناتی کے بعد سے کرپٹو کے شعبے پر کریک ڈاون کیا۔

کرپٹوکرنسی کے بہت سے مداحوں نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے اس اعلان کو قبول کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آنے والے انتخابات میں کرپٹو ایک اہم موضوع ہوگا۔ تاہم کئی کو اس سے محض موقع پرستی کی بو آئی تھی۔

جب کرپٹو تقریبا تین برس قبل امریکی مرکزی دھارے میں داخل ہوئی تو اس کے حامی سیاسی میدان کے دونوں اطراف تھے۔ بہت سے کرپٹو کے حامی آزاد خیالات رکھتے تھے۔ انہوں نے اسے ایک نعمت قرار دیا تو کئی نے اسے امریکی معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ مانا تھا۔

تاہم بڑی تعداد میں امریکی کرپٹو کرنسی کی بابت محتاط ہیں۔2023کےپیو سروے کے تین چوتھائی جواب دہندگان نے کہاتھا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ کرپٹو ٹریڈ کرنے کے موجودہ طریقے قابل اعتماد یا محفوظ ہیں۔

امریکا کےصدارتی انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینے والے، رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر نے بھی مذکورہ کانفرنس سے خطاب اور اعلان کیاتھا کہ وہ بٹ کوائن کوا سٹریٹجک قومی اثاثے کے طور پر استعمال کریں گے۔ 

انہوں نے کہاتھاکہ بٹ کوائن آزادی اور امید کی کرنسی کی ایک ٹیکنالوجی ہے۔ انہوں نے صدر منتخب ہونے کی صورت میں اپنی صدارت کے پہلے دن سے محکمہ خزانہ کو ریزرو اثاثے کے طور پر روزانہ550بٹ کوائن خریدنے اور تقریبادو لاکھ بٹ کوائن امریکی خزانے میں منتقل کرنے کی ہدایت کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

ان اعلانات کے ساتھ ہی نہ صرف بٹ کوائن، بلکہ دنیا بھر میں دیگر کرپٹو کرنسیز کی مالیت میں بھی اضافہ دیکھا گیا تھا۔ ان میں ڈوج کوائن بھی شامل تھی جس کی تشہیر کرنے والوں میں ایک نمایاں شخصیت ٹرمپ کے حامی اور ایکس کے ارب پتی مالک ایلون مسک تھے۔ ٹیکنالوجی کی معروف امریکی کمپنی، ٹیسلا کے سربراہ، ایلون مسک بھی کرپٹوکرنسی کے حامی رہے ہیں۔ 

لیکن2021 میں جب انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کی کمپنی، ٹیسلا نے اپنی گاڑیوں کی ادائیگی بٹ کوائن کے ذریعے قبول کرنے کے منصوبے کو ترک کر دیا ہے تو بٹ کوائن کی قیمت میں کمی دیکھی گئی تھی۔ اس وقت ایک بٹ کوائن کی قیمت 40 ہزار ڈالر تک جا پہنچی تھی۔اس سے قبل دسمبر2017میں بٹ کوئن کی قیمت 10 ہزارڈالر تھی۔

قیمتی تو ہے، مگر مستند نہیں

بِٹ کوائن ایک کرپٹو کرنسی ہے جسے آپ ڈیجیٹل کرنسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ روایتی طور پر دُنیا بھر میں استعمال ہونے والی کرنسیز،مثلا، ڈالر، پاونڈ یا روپے وغیرہ سےاس لیے مختلف ہے کہ اسے کوئی مستند مالی ادارہ کنٹرول نہیں کرتا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسی کرنسی جو کسی ادارے کے کنٹرول میں نہیں انہیں مالی آزادی فراہم کرسکتی ہے۔ لیکن دوسری جانب اسی وجہ سے اس کرنسی کی قدر غیریقینی صورت حال کا شکار رہتی ہے۔

ریکارڈ تنزلی کے بعد فروری 2024 میں بٹ کوائن کی قیمت ایک بار پھر تیزی سے اوپر جانا شروع ہوئی اور آج کل یہ تاریخی سطح تک پہنچی ہوئی ہے اور جن لوگوں کے پاس یہ ہے ان کے وارے نیارے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ صرف کچھ عرصے پہلے بِٹ کوائن کی قدر تیزی سے گری تھی اور ایسا حالیہ دور میں متعدد مرتبہ پہلے بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنُیا بھر میں گردش کرنے والے بٹ کوائنز کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 90 لاکھ ہے۔

بلاک چین

بلاک چین ایسی ٹیکنالوجی ہےجو نہ صرف ہر قسم کی کرپٹو کرنسی کی بنیاد ہے بلکہ این ایف ٹیز بھی اسی کے تحت چلائی جاتی ہیں۔ عام زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک اسپریڈ شیٹ ہے جس پر کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت درج ہوتی ہے۔ یہ خرید و فروخت بلاکس کی شکل میں شیٹ پر موجود ہوتی ہے۔

یہ بلاکس چینز، یعنی زنجیروں کی شکل میں ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں۔کرپٹو کرنسی کی ہر ٹرانزیکشن بلاک چین پر رضاکاروں کے ایک نیٹ ورک کی مدد سے ریکارڈ کی جاتی ہے اور یہی رضاکار کمپیوٹر پروگرامز کے ذریعےاس کرنسی کی خرید و فروخت کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔

بِٹ کوائن نیٹ ورک کے رضاکاروں کا اس میں فائدہ یہ ہے کہ جو بھی اس خرید و فروخت کی پہلے تصدیق کرتا ہے اسے انعام میں بِٹ کوائن دیے جاتے ہیں۔ اس قابل منافع عمل کو ’’مائننگ‘‘ کہا جاتا ہے، مگر یہ عمل متنازع بھی ہے کیوں کہ دنیا بھر میں لوگ سب سے پہلے تصدیق کی دوڑ میں رہتے ہیں اور اسی سبب برقی توانائی بھی ضائع ہوتی ہے۔

کرپٹو ایکسچینج

کرپٹو ایکسچینج ایک ایسا ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے جہاں سرمایہ کار کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ روایتی اندازِ کاروبار کی طرح کرپٹو ایکسچینج بھی کسی بروکریج ہاؤس کی طرح کام کرتا ہےجہاں لوگ بینکس سے اپنی رقوم نکال کر ڈالر یا پاونڈ کو بِٹ کوائن یا ایتھیریم جیسی کرپٹو کرنسی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو روایتی کرنسیز کو ڈیجیٹل کرنسیوں میں تبدیل کرنے کے لیے اکثر فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔

ہمارے فیصلہ کرنے کا وقت آگیا؟

اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں ڈیجیٹل کرنسی کے فروغ اور اس کو کیش (کاغذ سے بنی نقد رقم) کے مستقل متبادل کے طور پر اپنانے کے متعلق غور و فکر ہو رہا ہے، اور جہاں کئی ممالک نے اس کا جزوی نظام رائج کیا ہے وہاں دو ریاستوں ال سلواڈور اور وسطی افریقی جمہوریہ میں اسے بالکل ایسے ہی قبول کیا جاتا ہے جیسے ان کے اپنے یا غیرملکی کرنسی نوٹ کو۔

امریکا کےوائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر موجود ایک رپورٹ کے مطابق16فی صدسے زائد امریکیوں نے جنوری 2023کے مہینے تک کسی نہ کسی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ دوسری جانب سوسے زائد ممالک کے مرکزی بینک اپنی ڈیجیٹل کرنسی شروع کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ 

برطانیہ میں کرپٹو کرنسی کو نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہے بلکہ کرپٹو رکھنے والے ٹیکس نیٹ میں بھی لائے جا چکے ہیں۔ چین نے 2021میں کرپٹو میں کاروبار، مائننگ اور ٹریڈنگ پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہاں کرپٹو کرنسی رکھنے پر فی الحال کوئی پابندی نہیں ہے۔بعض ماہرین کے مطابق یہ تجارت اب بحرانوں سے نکل آئی ہے اور اب اس میں واضح اضافے کی توقع ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار سے منسلک ایک شخص کے مطابق پاکستان کے مرکزی بینک نے 2018 میں عوام اور اداروں کو کرپٹو کرنسی میں لین دین اورسرمایہ کاری سے منع کیا تھا، مگراب ٹریڈنگ کے کسی بھی پلیٹ فارم پر کوئی پابندی نہیں۔ اُن کے مطابق یہ ہدایات منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے جاری کی گئی تھیں۔

اس سب کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈیجیٹل کرنسی خرید رہی ہے۔گلوبل کرپٹو کرنسی انڈیکس کے مطابق 2022 میں پاکستان اس کرنسی کے لین دین کی درجہ بندی میں چھٹے اور2021میں تیسرے نمبر پر تھا۔

کرپٹو کرنسی کے کاروبار سے منسلک بعض افراد کے بہ قول اگرحکومتِ پاکستان ڈیجیٹل کرنسی سے پابندی اٹھا کر اس کا باقاعدہ ٹریڈنگ پلیٹ فارم بنائے تو موجودہ اقتصادی مشکلات میں فوری کمی ممکن ہے اور یہ ریوینیو اکٹھا کرنے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر پاکستان نے بروقت فیصلے نہ کیے اور اس کو اپنانے کے لیے قانون سازی نہ کی گئی تو وقت گزر جائے گا، اور ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

یہ بات درست ہے کہ کرپٹو کو مستقبل کی کرنسی کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت بن چکی ہے، لیکن اس کےضمن میں قوانین کی عدم موجودگی، پابندیوں اور مارکیٹ کا عدم استحکام کچھ ایسے عوامل ہیں جس پر بعض ماہرین کو ہمیشہ تحفظات رہے ہیں۔ دنیا میں صرف چند ریاستیں (بنگلا دیش، چین، الجیریا، بولیویا، کولمبیا، مصر، انڈونیشیا وغیرہ) ہیں جہاں ان کرنسیوں کے کاروبار پر پابندی ہے۔ 

لیکن میڈیا میں گاہے بہ گاہے ایسی رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں جن کے مطابق پابندی لگانے والے ان ممالک کے ساتھ دیگر کئی ممالک میں بھی مرکزی بینک کی اجارہ داری والی ڈیجیٹل کرنسیز لانچ کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب تک اس مارکیٹ سے متعلق مہارت حاصل نہ ہو جائے اس میں سرمایہ کاری مالی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان میں جہاں ایک جانب بعض افراد کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کا مطالبہ کررہے ہیں وہاں اس نام پر بڑی بڑی جعل سازیاں بھی ہورہی ہیں۔ ملک میں ایسے ہزاروں، لاکھوں افراد ہیں جن کے اصل اعداد و شمار کسی کے پاس نہیں جو پاکستان میں پابندی کے باوجود کرپٹو کرنسی کے لین دین کا حصہ بنتے ہیں۔ کچھ پیسے کماتے ہیں، کچھ گنواتے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے 2018 کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے لین دین سے منع کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار کا رجحان گزشتہ سالوں میں تیزی سے بڑھا ہے۔ لین دین کے اس رجحان کے ساتھ ہی آن لائن دھوکادہی میں بھی اضافہ ہوا ہے جس میں ہزاروں افراد جھانسے میں آ کر کرپٹو کرنسی کے ذریعے جلد اور با آسانی پیسے کمانے کے لالچ میں آ جاتے ہیں۔

دو برس قبل ملک میں ایسے ہی ایک آن لائن فراڈ کی تحقیقات پاکستان کا وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کر رہاتھاجس میں ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے کرپٹو کرنسی پر لگایا جانے والےدس کروڑ ڈالرز یا18ارب روپے کا مجموعی سرمایہ اچانک غائب ہو گیاتھا۔

ایف آئی اے کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر کراچی کے مطابق اس فراڈ کے ذمے دار تقریبا گیارہ ایسے اکاؤنٹ تھے جو کرپٹو کرنسی میں لین دین کے لیے استعمال کیے جاتے تھے اور بین الاقوامی کرپٹو کرنسی ایکسچینج بائنینس سے منسلک تھے۔

اس وقت دنیا میں چار ہزار سے زائد کرپٹو کرنسیز استعمال ہو رہی ہیں جن میں بِٹ کوائن سرفہرست ہے۔ 2009 میں متعارف ہونے کے بعد سے بِٹ کوائن کی قیمت میں شدید اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کیا ہوتا تو یہ فراڈ ہونا مشکل تھا۔ اگر پاکستان میں قانون ہوتا تو پاکستان کی جانب سے بائنینس کو اپنی شرائط دی جاتیں کہ اگر پاکستانیوں کے اکاؤنٹ کھولے جائیں تو کن شرائط پر کھولے جائیں اور کیا معلومات لی جائیں جو حکومت کو بھی مہیا کی جائیں۔

فوائد زیادہ یا نقصان؟

پاکستان میں اب تک کرپٹو کرنسی کا کاروبار غیر قانونی ہے۔سرکاری حکام کو خدشہ ہے کہ ملک میں لوگوں کو کم مدت میں زیادہ منافع کمانے کی ترغیب دے کر پھانسا جا رہا ہے۔ اس طرح ملک سے ناجائز پیسہ بھی غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیا جا سکتا ہے یعنی منی لانڈرنگ ہو سکتی ہے۔ 

اس سفارش کی ایک اور وجہ زرِ مبادلہ کے ذخائر کی ممکنہ طور پر بیرون ملک منتقلی بھی بتائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر کئی ممالک کرپٹو کرنسی پر پابندی عائد کر چکے ہیں جن میں چین، بنگلا دیش، مصر، مراکش، ترکی، نائجیریا، ویت نام، سعودی عرب، بولیویا اور کولمبیا شامل ہیں۔

تاہم بعض ماہرین کا موقف ہے کہ کسی بھی معاشی سرگرمی پر پابندی عائد کرنا جمہوری معاشرے کے لیے اچھا عمل نہیں اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی عمل کو قانونی شکل دینا اورپابندی عائد کرنا دو مختلف صورتیں ہیں۔

پاکستان میں بہت سے کام قانونی نہیں لیکن ان پر پابندی بھی نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی جیسے ادارے مل کر بیٹھیں اور سوچیں کہ اس انڈسٹری کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے۔ امریکا میں کرپٹو سے ٹیکس کمایا جاتا ہے۔

پاکستان میں یہ کام کیسے کرنا ہے، یہ حکومت کو سوچنا ہو گا۔ لیکن کسی سے رائے لیے بغیر پابندی عائد کرنا غلط ہو گا۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ کرپٹو میں صرف فراڈ ہی ہو رہا ہے، لیکن یہ ایک ہائی رسک انڈسٹری ضرور ہے۔جیسے حصص بازار میں لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں، ویسے ہی کرپٹو میں بھی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ لیکن اپنی سمجھ اور استعداد کے حساب سے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

لوگوں کو بتائیں کہ کرپٹو کرنسی کیا ہے۔ اس کا استعمال کیسے ہونا چاہیے۔ معلومات جتنی عام ہوں گی، دھوکا دینا اتنا مشکل ہو گا۔ لوگوں کے لیےتربیت کا انتظام کریں تاکہ وہ اس سے پیسے کما سکیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں کرپٹو کرنسی کی اہمیت بڑھ جائے گی ،کیوں کہ اس کے پیچھے جو ٹیکنالوجی کام کر رہی ہے اس کے کئی اور فوائد بھی ہیں۔ اس وقت تو لوگ صرف یہی سمجھتے ہیں کہ کرپٹو سے پیسے کمائے جا سکتے ہیں، لیکن آنے والے دنوں میں احساس ہو گا کہ کرپٹو صرف ٹریڈنگ کا نام نہیں۔آنے والی ٹیکنالوجی بلاک چین پر منحصر ہوگی۔

کرپٹو کرنسی کی چوری

گزشتہ برس دنیا بھر میں کرپٹو کرنسیز کی مد میں مجموعی طورپر2.2ارب ڈالرز چوری کیےگئے۔ چوری کی ان وارداتوں میں مغربی ایشیائی ملک کے ہیکرز سب سے آگے رہے۔ برطانوی ذرایع ابلاغ کے مطابق ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کرپٹوں کرنسیز کی چوریوں میں شمالی کوریاکے ہیکرزنے 1.3 ارب ڈالر مالیت کی ڈیجیٹل کرنسیز چرائیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں دگنی رقم ہے۔

تحقیقاتی ادارے چینالیسس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ہیکرز کی جانب سے چرائی جانے والی کرپٹو کرنسی کی مالیت اس سےپچھلے سال کے مقابلے میں21فی صد زیادہ رہی، لیکن یہ اب بھی2021اور 2022 میں چرائی گئی رقم سےکم ہے۔

گزشتہ برس کرپٹو کرنسی کی چوری کےچند بڑے واقعات میں جاپانی کرپٹو ایکسچینج، ڈی ایم ایم بٹ کوائن سے30کروڑ ڈالرز کے بٹ کوائن کی چوری اور بھارت کے ایک کرپٹو ایکسچینج سے تقریباً 23 کروڑ ڈالر کی چوری شامل ہے۔

پاکستانیوں کی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے2018 میں اعلان کیا تھاکہ بٹ کوائن جیسی ورچوئل کرنسیز حکومت کی طرف سے جاری کردہ یا ضمانت یافتہ قانونی حیثیت نہیں رکھتیں، لیکن تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود، کرپٹو کرنسیز میں پاکستانیوں کی دل چسپی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان نے 2021 میں تقریباً 20بلین ڈالرز کی کرپٹو کرنسی کی قدر ریکارڈ کی تھی جواس وقت ملک کے وفاقی ذخائر سے زائد رقم تھی۔

پاکستان 2020-21 کے دوران کرپٹو کرنسی اپنانے کے انڈیکس میں بھارت اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر تھا۔ لیکن اب دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے، لہذا 2023میں 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے باجود پاکستان دنیا میں کرپٹو کی خرید و فروخت میں آٹھویں نمبر پر رہاتھا۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 2020-21 میں تقریباً 20 بلین ڈالر کی کرپٹو کرنسی کی مالیت ریکارڈ کی، جس میں 711 فی صد کا غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے بٹ کوائن سمیت مختلف کرپٹو کرنسیز میں بہت زیادہ انویسٹمنٹ کی ہوئی ہے مگر پاکستان میں اس کے متعلق کوئی قانون نہ ہونے کے باعث اگر وہ منافع بھی کماتے ہیں تو وہ ایف بی آر کو ظاہر نہیں کرسکتے۔

ایک قدم آگے، دس قدم پیچھے

پاکستان کے صوبے خیبر پختون خوا نے دسمبر 2020 میں کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی اور مارچ2021میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے تسلیم کیا تھاکہ ڈیجیٹل کرنسی کے بارے میں حتمی فیصلہ صرف وفاقی حکومت ہی کرسکتی ہے۔

ایف پی سی سی آئی قومی کرپٹو کرنسی کی حکمت عملی وضح کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ عوام کے معاشی مفادات کے تحفظ اور نئے نظام کی کم زوریوں کو کم کرنے کے لیے نیا مالیاتی نظام جلد از جلد اپنایا جائے جس کے ساتھ ایک ریگولیٹری فریم ورک بھی ہونا چاہیے۔ لیکن 17 مئی 2023 کو وزیر مملکت برائے خزانہ، عائشہ غوث پاشا نے واضح طور پر کہا تھاکہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو کبھی قانونی قرار نہیں دیا جائے گا اور کرپٹو کرنسی پر پابندی کے لیے کام شروع کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا استعمال روکنے کے لیے قانون سازی کی ہدایت کی تھی۔ اس وقت کی وزیر مملکت برائے خزانہ، عائشہ غوث پاشا نے کمیٹی کو بتایا تھاکہ کرپٹو کرنسی پر پابندی کے لیے قانون سازی عمل میں لائی جائے گی۔ اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا تھاکہ اسٹیٹ بینک اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) نے ملک میں کرپٹو کرنسی بند کرنے پر کام شروع کر دیا ہے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیجیٹل،ا سٹیٹ بینک، سہیل جبار نے کمیٹی کو بتایا تھاکہ کرپٹو کرنسی مکمل فراڈ ہے، جس کی پاکستان میں کبھی اجازت نہیں دی جائے گی اور یہ کہ کرپٹو کرنسی میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری پرایف آئی اے اور ایف ایم یو کارروائی کر رہا ہے، کرپٹو کرنسی کی16ہزار سے زائد اقسام بن چکی ہیں اور چین نے بھی کرپٹو کرنسی پر پابندی عائد کردی ہے۔

اب سے چار برس قبل، چوبیس جنوری 2020 کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے خیبر پختون خوا کے ضلع شانگلہ میں کرپٹو کرنسی کے مائیننگ فارم کو قبضے میں لے کر دو افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔

تحقیقات کرنے والے افسران کے مطابق یہ مائیننگ فارم غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا جہاں ڈیجیٹل کرنسی بنائی جاتی تھی اور پھر ویب سائٹس پر فروخت اور اس پر کمیشن لینے کا کاروبار بھی کیا جا رہا تھا۔

اب رواں ماہ کی نو تاریخ کو پاکستان کی حکم راںن جماعت کے سینیٹر، ڈاکٹر افنان اللہ خان نے ایک نجی بل، ’’ورچوئل اثاثہ جات بل 2025‘‘ متعارف کرایا ہے، جو ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل اثاثہ جات کی مارکیٹ،بہ شمول کرپٹو کرنسیز اور بلاک چین ٹیکنالوجیز کے لیے ریگولیٹری فریم ورک بنانے کی جانب ایک انقلابی قدم قرار دیا گیا ہے۔ 

اس بل کا مقصد مرکزی بینک کے قواعد و ضوابط کے تحت پاکستانی روپے (PKR) سے منسلک ڈیجیٹل روپے کی تخلیق کی بنیاد رکھنا ہے۔یہ بل پاکستان میں ورچوئل اثاثوں کے اجرا، استعمال، تجارت، اور انتظام کے لیے ایک قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، یہ یقینی بناتے ہوئے کہ ایسے اثاثے پاکستانی روپے کے ذریعے ضمانت شدہ ہوں۔

بل کا ایک اہم عنصر ورچوئل اثاثہ جات زونز کا قیام ہے، جو کرپٹو کرنسیز کی تجارت اور انتظام کے لیے مخصوص علاقے ہوں گے، تاکہ مالی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے، سرمایہ کاروں کی حفاظت کی جا سکے، اور غیر قانونی سرگرمیوں جیسے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکا جا سکے۔

ماہرین کے بہ قول فی الحال پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی ٹریڈنگ اور مائننگ لیگل گرے ایریا میں ہے۔ وفاقی حکام کو سرمایہ کاروں کے لیے اس شعبے کو باضابطہ طور پر کھولنے سے پہلے اسے قانونی حیثیت دینے کی طرف واضح راستہ فراہم کرنا ہوگا۔