• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم جب انبالہ چھائونی سے ایک مال گاڑی کے کھلے ڈبے میں بلوائیوں کے گھوڑوں کی ٹاپیں، سکھوں کی لہراتی کرپانیں دیکھتے لاہور اسٹیشن تک پہنچے تھے۔ کیا اس وقت اس پاک سر زمین پر کسی مافیا کا وجود تھا؟۔

بہت یاد کیا، کتابیں دیکھیں، اخبارات کی فائلیں کھنگالیں، جواب نفی میں تھا۔

آج اتوارہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے۔ عالمی اور مقامی حالات پر تبادلۂ خیال کا دن۔ آج تو اہم موضوع ہے غزہ میں جنگ بندی۔ انتہائی المناک، خوفناک تباہی، مظالم، عالمی بے حسی۔ 46ہزار جیتے جاگتے انسان۔ موت کے اندھیروں میں دھکیل دیے گئے۔ اکتوبر2023 سے اب تک جاری جارحیت میں اصل نشانہ آئندہ فلسطینی نسل تھی۔ اسکول مسمار، اسپتال بموں سے اڑا دیے گئے۔ آسمان کی آنکھ نے ایک طرف 97سالہ ضعیف فلسطینی ماں کو خون میں لت پت دیکھا۔ اور دوسری طرف صرف ایک دن پہلے پیدا ہونے والا بیٹا بھی۔ 46ہزا رشہدا میں سے 70فی صد مائیں اور بچے ہیں۔ اسرائیل کی سفاک مافیا نے اس بار بمباری، فائرنگ بہت منظم انداز میں کی۔ جدید ترین ہتھیار۔ ہلاکت خیز ٹیکنالوجی، بالکل نیا انداز تحقیق۔ امریکہ برطانیہ پس پشت تھے۔ عالم اسلام کی خاموشی بھی اسرائیل کا ایک کامیاب ہتھیار تھا۔

اپنی اولادوں سے معلوم کیجئے۔ وہ اپنے اسمارٹ موبائل سے آپ کو زیادہ با خبر کرسکیں گے کہ 15مہینوں کی مسلسل شیطانیت کے بعد اس جنگ بندی سے فائدہ بھی اسرائیل کو ہی ہوگا کہ اس کے پاس ایک جدید ترین ریاست ہے۔ متعصب یہودی ہیں۔ سرمایہ ہے۔ طاقت ور سرپرست ہیں۔ مقابلے میں فلسطین کی برائے نام ریاست۔ جو اسرائیل نے گھیری ہوئی ہے۔ عرب ملکوں نے از خود سرحدیں بند کر رکھی ہیں۔ عرب بادشاہتیں بھی ان سرکشوں کو کھلا دیکھنا نہیں چاہتیں۔ فلسطین کو آج تک خود مختاری نہیں مل سکی۔ مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی بھی برسوں سے جاری ہے۔ میں تو اسے اسرائیل کیلئے سفاکی، جارحیت کیلئے از سر نو تازہ دم ہونے کا ایک وقفہ کہوں گا۔ کل 20 جنوری سے حلف اٹھانے والا ٹرمپ بھی فلسطین کے سانس لینے کے حق میں نہیں ہے۔ او آئی سی کو بھی ذہین، حسین، علم دوست فلسطین سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔

پاکستان بنا تو میری یادداشت کے مطابق مافیاز نہیں تھے۔ انگریز کے دَور سے کسی حد تک سرکاری نظم و نسق، سسٹم ہمیں ملا تھا۔ جب حکومتیں دور اندیشی سے اپنا ایک روڈ میپ نہ بنائیں۔ قانون کا نفاذ سب کیلئے یکساں نہیں ہوتا۔ جب سرکاری افسر، اثر و رسوخ اور مال و دولت کےلالچ میں ڈھیلے پڑ جاتے ہیں تو عوام اور سرکار کے درمیان یہ خلا کسی کو پُر کرنا ہوتا ہے۔ اندر سے کلرک اور افسر بھی مدد کرتے ہیں۔ وقت آتا ہے کہ بعض محکمے خود مافیا بن جاتے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاست جنم لیتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا کہنا ہے کہ جہاں بھی کوئی سنہری موقع ہے۔ وہاں مافیاز از خود موجود ہوتے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی تو مافیا کا جنم اٹلی میں تلاش کرتی ہے کہ انیسویں صدی میں جرائم پیشہ لوگوں نے اسے خفیہ طور پر قائم کیا۔ یورپی ممالک کی مافیائوں کے درمیان بھی ڈپلومیٹک رابطے ہوئے۔ بیسویں صدی میں ایک دوسرے کی خوب مدد کی۔ پہلے یہ لازمی تھا کہ مافیا کا کوئی رکن اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرے گا۔ اس لیے سازشوں کی منصوبہ بندی، بڑی دعوتوں میں کی جاتی تھی۔ یا پھر بڑی شادیوں میں جہاں مختلف جرائم تنظیموں کے سربراہوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقع مل جاتا تھا۔ ایک دوسرے کی اقلیم کا احترام کیا جاتا ہے۔ منشیات، اسلحے کی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، پولیس سے گٹھ جوڑ، بڑے بڑے پولیس افسر بھی مافیا کے خفیہ رکن ہوتے ہیں۔ مسلم مافیا ہوں یا غیر مسلم۔ بے ایمانی کے سارے کام بہت ایمانداری سے انجام دیے جاتے ہیں۔ مختلف مافیائوں نے اپنے آئین، اپنے قوانین طے کیے ہوئے ہیں۔ ریاست پاکستان تو اپنے مفادات کا تعین آج تک نہیں کرسکی ۔ لیکن پاکستان کے مافیائوں نے ملک گیر سطح پر بھی۔ صوبائی اور شہری طور پر بھی اپنے مفادات اپنے اصول طے کر رکھے ہیں اور اس کی پابندی کی جاتی ہے۔ مافیاز جہاں بہت سفاک اور بربر ہوتے ہیں۔ وہاں وہ بہت رومانٹک، نفاست پسند اور شائستگی کا پیکر بھی ہوتے ہیں۔ مافیائوں اور فلمی دنیا میں روابط کا چرچا تو فلموں، ناولوں اور اب سوشل میڈیا پر دیکھنے سننے میں آتا ہے۔ مافیائوں اور سیکرٹ سروسز میں بھی خفیہ تعلقات ہالی وڈ کی فلموں اور سڈنی شیلڈن کے ناولوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ریاست کو شروع سے بہت ملکی اور غیر ملکی چیلنجوں کا سامنا تھا۔ پھر بھارت نے اسے اپنے جسم کاٹنے کا مرحلہ جانا۔ دل سے اس مملکت کو تسلیم نہیں کیا۔ اس لیے ہمارے وجود کو ابتدا سے ہی سیکورٹی کا مسئلہ رہا ہے۔ اسی عدم تحفظ کے احساس نے یہاں ایک ریاستی سسٹم، ریاستی اتھارٹی کو مستحکم نہیں ہونے دیا۔ 1958کے مارشل لا نے کسی سول سسٹم کے ارتقا میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈالی۔ جاگیردارانہ کلچر میں بھی سفارش اور رابطے بہت موثر ہوتے ہیں۔ اس طرح چھوٹے چھوٹے مافیا از خود قائم ہوتے رہتے ہیں۔ سیکرٹریٹوں، ملکی دفاتر کے باہر آپ کو اکثر ایسے با اثر لوگ مل جاتے ہیں۔ جو آپ کی فائل کو پہیے لگواسکتے ہیں۔ یہ تو چھوٹے پیمانے کے مافیا ہیں، بڑی مافیائوں والے شاندار بنگلوں میں رہتے ہیں۔ ان کے گماشتے مسائل میں مبتلا، کسی بڑی مل کے لائسنس یا کسی بڑے ایس آر او کیلئے آپ کو ان کے پاس لے جاتے ہیں۔

پاکستانی ڈراموں اور انڈین فلموں نے جنوبی ایشیا میں مافیائوں کے نیٹ ورک کا دبدبہ عوام کے دلوں میں بٹھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ہر شہر میں انہوں نے علاقے بانٹ رکھے ہیں کہ یہاں ڈاکہ صرف وہ لسانی گروہ ڈال سکتا ہے یا یہ فلاں بھائی کا علاقہ ہے۔ پولیس کے پاس آپ جب گاڑی چھیننے کی رپورٹ لکھوانے جاتے ہیں تو وہاں بیٹھے پولیس آفیسر ایک دوسرے سے یہ نہیں پوچھتے کہ یہ کونسے تھانے کی حدود میں ہے۔ وہ یہ تبادلۂ خیال کرتے ہیں کہ یہ کس کا علاقہ ہے۔

سیاسی جماعتیں بھی ان مافیائوں کی مدد لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ مختلف علاقوں کے ووٹرز کی حمایت کیلئے ان کا تعارف ناگزیر ہے۔ مافیاز سب سے زیادہ موثر اور نتیجہ خیز غیر جمہوری دور میں ہوتے ہیں۔

آخر میں یہ عرض کروں گا کہ حکومت یا ریاست جب لوگوں کو ٹیکسوں کے عوض پینے کا پانی، ٹرانسپورٹ، رہائش، ملازمت، تعلیم، صحت، انصاف اور تحفظ دینے میں کمزور پڑتی ہے۔ یا اسے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتی۔ تو یہ خلا پُر کرتے ہیں جنہیں عرف عام میں لینڈ مافیا، واٹر مافیا، ٹینکر مافیا، ہائر ایجوکیشن مافیا، پیٹرول مافیا کہا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب سرکاری محکمے نا اہل ہوں تو مافیا غلبہ پالیتے ہیں۔

تازہ ترین