• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

جس طرح اچھے والدین، اولاد کے لیے رحمت ہوتے ہیں، اسی طرح نیک ،پاکیزہ، اللہ کے حکم پر چلنے والی اولاد بھی والدین کے لیے جنّت کے پھولوں کی مثل ہوتی ہے اور آخرت میں اُن کی نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا ہے، میری اولاد نماز کی پابند ہے۔ ایک دن ایسا نہیں جاتا کہ قرآنِ پاک کی رحمتیں ہم پر نہ برستی ہوں۔ مَیں بہت خوش نصیب ہوں کہ میرے ایک بیٹے نے وہ کام کر دکھایا کہ مَیں اس پر جتنا فخر کروں، کم ہے۔ 

میرا چھوٹا بیٹا، ایک فیکٹری میں ڈائریکٹر ہے۔ گھر کا ماحول خالص دینی ہے۔ میری بہو بھی عالمہ ہے اور شرعی پردہ کرتی ہے۔ دونوں بیٹے فرماں بردار اور شعائر ِاسلام کی مکمل پاس داری کرتے ہیں۔ مَیں اس قابل تو نہیں، مگر ایک بات ضرورہے کہ مَیں نے اپنے والدین کی نہ صرف بے لوث خدمت کی، بلکہ اپنے ایک بھائی رحمت اللہ کی، جو مجذوب، عالم اور حافظِ قرآن تھے، بہت خدمت بھی کی۔ میری اولاد بھی اپنے ماموں میاں پرجان چھڑکتی تھی۔ یقیناً اللہ نے آج اگر میری اولاد کو اوج پر پہنچایا ہے، تو یہ اُن ہی خدمات کا اجر ہے۔

پانچ سال پہلے کی بات ہے، میرے بیٹے نے اپنے ذاتی پیسوں سے مسجد کی تعمیر کا ارادہ کرکے شہر کے مختلف علاقوں میں مناسب زمین کی تلاش میں تگ و دو شروع کردی۔ شہر کے مختلف محلّو ں میں جگہ جگہ کوئی نہ کوئی مسجد ضرور تھی، لہٰذا وہ ایسی جگہ مسجد تعمیر کروانا چاہتا تھا، جہاں واقعتاً اللہ کے گھر کی ضرورت ہو۔بالآخر اپنے دینی ساتھیوں سے مشاورت کے بعد گڈاپ ٹاؤن میں نجی یونی ورسٹی کے عقب میں تین ہزار گز کی زمین مل گئی، تو خرید کرمسجد کی تعمیر کاآغاز کردیا۔

اس کارِ خیر میں میری قابلِ فخر بہو نے بھی حصّہ لیتے ہوئے اپنا تمام زیور اپنے شوہر کے حوالے کردیا۔ جب میں نے بہو کا یہ جذبہ دیکھا، تو خوشی سے آنسو بہہ نکلے۔ واقعی اگر مائیں، بیٹیوں کی دینی تربیت کریں، تو کوئی بیٹی ’’زیور‘‘ پر جان نہ دے۔ خیر، مسجد کی تعمیر احسن طریقے سے شروع ہوگئی۔ اب دیکھیے اللہ کا ایک اور کرم، اس زمین پر برسوں سے ایک کنواں تھا، جو بالکل خشک تھا، میرے بیٹے نے ’’صلوٰۃ الحاجات‘‘ پڑھی اور اللہ سے مدد مانگ کر پانی کھینچنے کی موٹر لگائی۔ اللہ کی شان دیکھیے، وہ کنواں، جو برسوں سے خشک پڑا تھا، لبالب پانی سے بَھرگیا۔ 

میرے بیٹے نے ٹینکیاں بنوائیں اور مسجد بھی بہت ہی شان دار تعمیر ہوئی۔ پھر وہیں مدرسہ بھی بنوایا۔ نیز، مسجد میں امام صاحب کے لیے الگ سے گھر بھی بنوایا۔ میرے بیٹے نےاس مسجد کا نام ’’محمد مسجد‘‘ رکھا ہے۔ الحمدللہ، مسجد کے قریب گائوں میں رہنے والے افراد میں بھی جذبۂ ایمانی کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہے، وہ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور روزانہ پانچ وقت باضابطہ نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ نیکی کا یہ عمل، کسی نیکی ہی کا صلہ ہے کہ مسجد کی تعمیر اور اس میں اللہ کی عبادت سے بڑھ کر سعادت بھلا اور کیا ہوسکتی ہے۔ (شبینہ گل انصاری،نارتھ کراچی،کراچی)