• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے۔ ترجمہ :مَیں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور اُن کی دُعاؤں کو قبول کرتا ہوں۔ (سورۃ البقرہ، آیت 186)۔ زیرِ نظر واقعہ دُعا کی قبولیت کے حوالے سے ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا کی بدولت کیسے مصیبت دُور فرما دیتا ہے۔ 

یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میں ملازمت کے سلسلے میں روزانہ گوجرانوالہ جایا کرتا تھا اور شام کو لاہور اپنے گھر واپس آجایا کرتا۔ ایک روز حسبِ معمول صبح آفس گیا اور شام کو گھر واپس جانے کے لیے نکلا تو اُس وقت آسمان پر ہر طرف گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔اگست کا مہینہ تھا، بارش کا کچھ پتا نہیں تھا کہ کب ہوجائے۔

ایسے موسم میں مجھے اپنے گھر جاتے دیکھ کر کچھ ساتھیوں نے اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گہرے بادل چھا رہے ہیں اور موسم بھی خراب ہو رہا ہے، لہٰذا آج یہیں قیام کرلو، اگلے روز گھر چلے جانا۔ لیکن میں نے اصرار کیا کہ ’’اسٹاپ پر لاہور کی بس مل ہی جائے گی اور آسانی کے ساتھ گھر پہنچ جائوں گا۔‘‘ مَیں کسی طرح رُکنے پر تیار نہ تھا، تو میرے دوستوں نے بادل نخواستہ مجھے اسٹاپ (پنڈی بائی پاس) پر اُتار دیا۔

اسٹاپ کے اِردگرد دُور دُور تک کوئی شیلٹر وغیرہ بھی نہیں تھا۔ مَیں اسٹاپ پر بس کا انتظار کرنے لگا، اسی اثناء بادل پوری طرح چھاگئے اور اندھیرا مزید گہرا ہونے کے ساتھ بارش بھی شروع ہوگئی۔ سڑک کی طرف نگاہ دوڑائی، تو دُور دُور تک بس کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ کافی وقت گزر گیا، بارش کی رفتار میں مزید تیزی آگئی تھی۔ 

بس کے لیٹ ہوجانے کی صُورت میں میرا بُری طرح بھیگ جانا یقینی تھا۔ بارش جیسے جیسے تیز ہوتی جارہی تھی، میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ اسی لمحے میرے دل سے دُعا نکلی ’’یااللہ پاک! میری غیب سے مدد فرما۔‘‘ میں مسلسل بے چینی سے بس کی راہ تک رہا تھا، لیکن بس کو نہ آنا تھا، نہ آئی۔ شاید پیچھے زیادہ بارش کی وجہ سے سب بسیں وہیں کہیں رُک گئی تھیں۔ 

بہرحال، مَیں دل ہی دل میں مسلسل اللہ پاک کو پُکار رہا تھااور گِڑگڑا کر دُعا مانگ رہا تھا کہ ’’میرے مالک! کوئی راستہ نکال دے۔‘‘ بارش اپنے جوبن پرتھی، میرے کپڑے مکمل طور پر بھیگ چکے تھے۔ موبائل فون کو احتیاطاً ایک شاپر میں محفوظ کرلیا تھا، اچانک اُس کی بیل بجنے لگی۔ 

مَیں نے ریسیو کیا، تو دوسری طرف سے آواز آئی ’’جاوید کہاں ہو؟‘‘ مَیں نے کہا کہ ’’پنڈی بائی پاس پر کھڑا ہوں۔‘‘ اس نے کہا کہ’’ آگے دیکھو۔‘‘ میں نے حیرت سے سامنے دیکھا، تو ایک کار میں میرے محلّے کا ایک قریبی دوست بیٹھا تھا۔ 

اُسے دیکھتے ہی مَیں دوڑتا ہوا اُس کے قریب پہنچا اور لپک کر کار میں سوار ہوگیا۔ کار میں بیٹھتے ہی سب سے پہلے اللہ ربّ العزت کا لاکھ لاکھ شُکر ادا کیا اور پھر جب مَیں نے اُسے بتایا کہ مَیں مسلسل اللہ پاک سے اس خطرناک موسم میں اپنی سلامتی کی دُعائیں، مدد مانگ رہا تھا، تو دوست نے بتایا کہ یقیناً تمہاری خلوصِ دل سے مانگی ہوئی دُعا کی بدولت ہی اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔ 

دراصل، میں یہاں سے ایک گھنٹے قبل ہی گزر جاتا، لیکن اتفاق سے ایک فائل آفس میں رہ گئی تھی، جس کی وجہ سے دوبارہ آفس جانا پڑا۔ فائل لے کر واپس آرہا تھا کہ اچانک تم پر نظر پڑی۔ تمہیں دیکھ کر پہلے پہچان نہیں پایا، لہٰذا کال کی اور پھر معلوم ہوا کہ وہ تم ہی ہو۔‘‘

سچ ہے، کسی بھی مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کو دل سے پُکارا جائے، تو وہ بڑا مسبّب الاسباب، کوئی نہ کوئی سبب ضرور بنا دیتا ہے۔ (محمد جاوید اقبال، فتح آباد روڈ، وحدت کالونی، لاہور)