• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بظاہر سخت گیر، حقیقتاََ دُوراندیش ... پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

’’گیٹ آؤٹ..... گیٹ آؤٹ فرام دی کلاس.....‘‘یہ گرج دار آواز ہوتی تھی، جامعہ کراچی کے سابق رئیسِ کلیۂ فنون وسماجی علوم، پروفیسر ڈاکٹر مونس احمرکی، جو آج بھی اچانک میرے کانوں میں گونج اٹھتی ہے۔14برس قبل یہ آواز تقریباً ہر روز ہی ہمارے کانوں میں گونجا کرتی۔ اِدھر گھڑی کی سوئی نو بجاتی اُدھر، پروفیسر صاحب فائل تھامے کلاس میں داخل ہوتے۔ پھر کسی کی کیا مجال کہ کوئی ایک سیکنڈ بھی دیر سے آجائے۔

ایسے میں اگر کوئی شامت کا مارا دبے پاؤں، چپکے چپکے کلاس میں داخل ہونے کی کوشش کرتا، تو فوراً سر کی دہاڑ سنائی دیتی۔’’ گیٹ آؤٹ۔‘‘اس موقعے پر اکثر کوئی ڈھیٹ بن کر منمناتے ہوئے ٹریفک جام کا عذر پیش کرتا یا کوئی طبیعت خراب ہونے کا بہانہ گھڑتا، مگر ان کا دل ذرا بھی نہ پسیجتا۔ ابتدا میں تو ہم جماعتوں کی یہ عزت افزائیاں معمول کا حصّہ تھیں، لیکن پھر رفتہ رفتہ ہم نے وقت کی پابندی سیکھ ہی لی۔ 

یونی ورسٹی کے ابتدائی دن ہوں، تو اساتذہ کے متعلق تمام تر معلومات، سینئرز کی آراء پر مشتمل ہوتی ہیں۔ پروفیسر مونس کا جو نقشہ ہمارے سامنے کھینچا گیا، وہ بڑا ہی خوف ناک تھا۔ ایک سینئرکا کہنا تھا۔ ’’پروفیسر مونس؟ اوہو، ہو ..... ارے بھئی، ان سے متعلق تو کچھ پوچھو ہی مت،ان سے کوئی سوال کرنا تو اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ 

سامنے والے کی ایسی عزت افزائی کرتے ہیں کہ بس اللہ دے اور بندہ لے۔‘‘کسی نے سینئر سے سوال کیا۔’’کبھی آپ نے انہیں مسکراتے یا ہنستے دیکھا؟‘‘ تو انھوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ایک تاریخی واقعہ بیان کردیا کہ ’’چار برس قبل شعبے کے ایک سیمینار میں، مَیں نے اُنھیں ہنستے دیکھا تھا، لیکن اتنی پراسرار ہنسی تھی کہ میں ڈر گئی۔ بس بھئی، بڑے ہی خطرناک ٹیچر ہیں۔‘‘ 

اب بھلا بتائیے کہ ایسے میں ہم اُن کے بارے میں کیسے کوئی خوش گوار رائے قائم کرتے۔ سر کے اسی رویّے کے سبب ہمارے یونی ورسٹی کے آزادانہ و بے فکری کے دن بھی اسکول کی طرح ڈسپلن میں گزرے۔ طلباء و طالبات ہی کیا، ڈیپارٹمنٹ کے جملہ اسٹاف تک ان کے سخت رویّے کی شکایت کرتے، لیکن چند ہی ماہ میں ہمیں بخوبی اندازہ ہوگیا کہ یہ سخت لب و لہجہ تو ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ، اور دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘ کی عملی تفسیر تھا۔

پہلے سال ہی سے یہ سنتے آئے تھے کہ بس دُعا کرنا، ریسرچ میں سر مونس سے واسطہ نہ پڑے، لیکن اسے قسمت کی ستم ظریفی کہیے یا خوبئ قسمت کہ ریسرچ میں ہمارے ریسرچ سپروائزر، سر مونس ہی ٹھہرے۔ اِدھر ناموں کی لسٹ لگی، اُدھر سر مونس نے نہ صرف فوری میٹنگ کال کی، بلکہ تین ماہ کے اندر ریسرچ مکمل کرنے کا پورا شیڈول تھما دیا۔ حسبِ عادت انھوں نے ریسرچ کے حوالے سے شیڈول اوراصول میں نہایت سختی سے کام لیاتھا۔ ان کی یہ سختی بہت سوں کی طرح ہمیں بھی کھٹکتی رہی، لیکن مرتے، کیا نہ کرتے، پوری یک سوئی سے تحقیق میں لگ گئے۔ 

ابھی دوسرے گروپس کے طلبہ کی ریسرچ کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ سرمونس کے سخت شیڈول کے باعث ہماری تحقیق مکمل بھی ہوگئی۔ وقت پر کام مکمل ہوا، تو ہمارا آخری سیمسٹر نہایت سکون سے گزرا، جب کہ ہماری وہ ہم جولیاں جو ہمارا مذاق اُڑایا کرتی تھیں، اُن کا حال یہ تھا کہ اُن کے سپروائزرز آگے آگے اور وہ پیچھے پیچھے ہوتیں، اُن کی ریسرچ تھی کہ مکمل ہونے ہی میں نہ آرہی تھی۔ 

جب کہ پروفیسر مونس کے تمام طلبہ کی ریسرچ اتنی جامع تھی کہ وہ اسے کہیں بھی فخر سے پیش کرسکتے تھے۔ پڑھائی کے معاملے میں بے شک وہ سخت گیر رویّے کے حامل تھے، لیکن اگر اُن کے حوصلہ افزا رویّے کی بات کی جائے، تو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ اگر کسی طالب علم میں لگن دیکھتے، تو تعریف و توصیف کے بجائے خاموش انداز میں اس کی حوصلہ افزائی شروع کردیتے۔ مجھے لکھنے لکھانے کا شوق بچپن سے تھا، لیکن دل چسپی کے باوجود کبھی کسی سیاسی موضوع پر قلم اٹھانے کی ہمّت نہیں ہوئی تھی۔

بین الاقوامی تعلقات کے پہلے ہی سال عالمی موضوعات پر میری تحریریں ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کا حصّہ بننے لگیں، تو یہ میری قابلیت نہیں، بلکہ سر کی رہنمائی تھی کہ مَیں جب کسی موضوع پر لکھنے کا ارداہ کرتی، تو تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے اور مواد اکٹھا کرنے کے بعد سر مونس کی خدمت میں حاضر ہوتی۔ میرے چھوٹے چھوٹے سوالات کا بھی سر مونس تفصیل سے جواب دیتے، جس سے میرے ذہن کے دریچے کھلتے چلے گئے۔ اگر یہ کہوں کہ صرف سر کی حوصلہ افزائی کے باعث ہی مَیں زمانۂ طالب علمی میں سیاسی اور بین الاقوامی موضوعات پر کچھ لکھنے کے قابل ہوئی، تو بے جا نہ ہوگا۔

اپنے مضامین کی تیاری کے سلسلے میں میرا دیگر شعبہ جات بھی جانا ہوتا تھا۔ اس دوران مَیں نے یہ بات شدّت سے محسوس کی کہ دوسرے شعبہ جات کے چیئرپرسن کا کمرا خوب آراستہ ہوتا، اے سی کی خنکی ہوتی، دیواروں پر آرٹ کے دل کش نمونے نظر آتے، لیکن ان شعبوں میں طلبہ کے لیے کوئی خاص سہولت نہیں تھی۔ 

کشادہ لیکچرز روم تھے، نہ ہی کھڑکیاں، دروازے سلامت۔ دیواریں گندی، چھتوں پر جالے، مگر شعبہ بین الاقوامی تعلقات کا معاملہ مختلف تھا۔ ہمارے چیئرپرسن کا کمرا تو انتہائی سادہ تھا۔ نہ بیٹھنے کے لیے عمدہ کرسیاں، نہ منہگے پردے۔ جب بجلی جاتی، تو پرانے زمانے کی بڑی بڑی کھڑکیاں کھول دی جاتیں۔ جب کہ ہمارے لیے بہترین لائبریری، کمپیوٹر لیب اور سہولتوں سے بھرپور کلاسزتھیں۔ 

صاف ستھرے وائٹ بورڈز، گلاس ونڈوز،اور اے سی کی ٹھنڈک سے بھرپور کلاسز، یعنی صفائی ستھرائی اور قرینے کے اعتبارسے ہمارا شعبہ سرکاری جامعہ کا حصّہ ہونے کے باوجود کسی نجی جامعہ سے کم معلوم نہیں ہوتا تھا۔ یہی نہیں، شعبے میں عالمی معیار کی کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد بھی معمول کا حصّہ تھا، تاکہ طلبہ مستقبل میں درپیش چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکیں۔ اب بھلا ایک استاد کی اپنے طالب علموں سے محبّت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا۔ کبھی کسی نے انھیں ہنستے دیکھا ہو یا نہیں، لیکن طلبہ کے لیے سہولتوں کی فراہمی پر کسی نے ان کو خود ستائی کرتے نہیں دیکھا۔ 

آج سوسائٹی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں، جہاں پروفیسر صاحب کے طلباء و طالبات اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ منوا رہے ہوں۔ جو یقیناً زمانۂ طالب علمی میں استاد کی جھڑکیوں سے ضرور نالاں رہتے ہوں گے، لیکن آج اُن کی صلاحیتوں اور پُرخلوص شفقتوں کے دل سے معترف ہیں۔ 

سر مونس احمر کے سنجیدہ اور کسی قدر خشک رویّے کے باعث ہم نالائق کبھی اُن کا شکریہ ادا نہیں کرسکے، تو اس تحریر کے ذریعے مَیں اپنے محترم استاد کا دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنا چاہتی ہوں کہ ’’آج آپ کے بہت سے شاگرد اگر کہیں سر اُٹھا کر کھڑے ہیں، تو اِس میں آپ کا بہت بڑا حصّہ ہے۔ تھینک یو سو مچ سر!! ‘‘ (بینش صدیقہ، کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید