پیارے دسمبر! تُم ایک بار پھر اپنے دامن میں ڈھیروں ڈھیر اُداسیاں سمیٹ کے رخصت ہوگئے۔ مُجھے یاد ہے کہ آج سے کوئی دو ماہ قبل جب تم نے دستک دی تھی، تو دروازے تک آنے والی قدموں کی چاپ میں سُست روی اور دروازہ کھولنے والے ہاتھوں میں کپکپاہٹ سی تھی کہ جیسے اُن سے ساری توانائی چھین لی گئی ہو۔ کواڑ کھولنے والے نے تمہیں یوں دیکھا، جیسے تم رستہ بھول بیٹھے ہواور غلطی سے وہاں آنکلے ہو۔
تب تمہارا جی چاہا کہ تم الٹے پاؤں واپس لوٹ جاؤ، مگر یہ اُس وقت تک ممکن ہی کب تھا کہ جب تک نئے سال کی ساعتیں شروع نہ ہوتیں۔ تمہیں ٹھہرنا تھا اور بُرا بھلا سب سُننا تھا۔ تمہارے کاندھوں پر نہ جانے کتنے بوجھ تھے، جنہیں تم کسی اور کے سُپرد کرکے ذرا سا سَستانا چاہتے تھے، مگر تمہیں اس نگر میں کوئی رعایت دینے پرآمادہ ہی نہ تھا۔
اندر داخل ہوتے ہی تمہیں کٹہرے میں کھڑا کر کےالزامات کی بوچھاڑ کردی گئی۔ اور پھر کتنے نوحے، کتنے بین آس پاس گونجنے لگے۔ ’’تم… ہاں، تم ہی ہو، اس سب کے ذمّے دار۔‘‘ بہت سی انگلیاں بہ یک وقت تم پر اُٹھیں۔ تمہاری آواز رندھ سی گئی اور آنکھیں نم ہوگئیں۔ تم نے مدد طلب نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی ترس کھائے اور مسافر کو پانی کا ایک گلاس ہی پوچھ لے، مگر مہمان نوازی کی سب رسمیں شاید قصّۂ پارینہ ہوئیں۔
تم چاہتے ہوئے بھی اپنی صفائی میں کچھ نہ کہہ سکے، گنگ کے گنگ کھڑے رہے۔ جب سب تم پر اپنی بھڑاس نکال کر تھک ہارگئے، توتب تم ایک کونے میں دُبک کے بیٹھ گئے۔ تم چاہتے تھے کہ اب کسی کی نظر تم پر نہ پڑے اور اکتیس دن پلک جھپکتے گزر جائیں، مگر ہرنیا دن تمہارے لیے ایک نئی آزمائش لے کر آتا رہا۔
تم آسماں کی طرف نگاہیں کیے فریاد کُناں رہے، مگر ہر روز بدلتی تاریخوں کے پُلِ صراط سے گزرنا ہی پڑا، حالاں کہ تم کِھلی، نکھری دُھوپ میں بچّوں کے ساتھ پارک میں کھیلنا چاہتے تھے۔ چُوں چُوں کرتی چڑیوں کے سنگ چہچہانا چاہتے تھے۔ دُھند میں لانگ کوٹ پہن کر لمبی سڑک پر چلتے چلے جانے کا تمہیں کتنا شوق تھا اور تمہیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گرما گرم شکرقندی کی دعوت اُڑانا بھی بہت پسند تھا، لیکن ایسی کتنی ہی خواہشات تم دِل میں دبائے بس سب سے چُھپتےہی پھرے۔
تم نے چوری چوری جنوری کوجلد آنےکے خط بھی لکھے، مگر جنوری تواپنے ناز نخروں میں مگن تھی۔ اُس کے استقبال کے لیے ریڈ کارپٹس بچھائے جارہے تھے۔ رنگوں، روشنیوں کا انتظام کیا جارہا تھا۔ وہ بھلا یوں بغیر تیاری، کیسے چلی آتی۔
اُس کا کمخواب و اطلس کا لباس کئی دنوں سے تیاری کے مراحل میں تھا اور اسے سنڈریلا جیسے جُوتوں کی تلاش بھی تھی، جواُسے مل نہیں پارہے تھے۔ پھر اُس کے نیکلس اور آویزے بھی جیولر اتنی جلدی دینے والا نہیں تھا۔ سو، اُس نے تمہیں ہری جھنڈی دکھادی۔ اب صبر کے سوا چارہ بھی کیا تھا اور تم ہمیشہ کی طرح صبر کے گھونٹ پیتے رہے۔
اکتیس تاریخ آئی، تو تم نے سُکھ کا سانس لیا اور واپسی کے لیے سامان سمیٹنے لگے، جو پہلے سے بھی زیادہ وزنی ہوگیا تھا، مگر اِس بوجھ کو تم ہی نے ڈھونا تھا، کیوں کہ تمھیں اچھی طرح علم تھا کہ تمہاری مدد کے لیے کوئی نہیں آئے گا۔ تم چاہتے تھےکہ کوئی تمہیں جاتے ہوئے نہ دیکھے، تو تمہاری یہ خواہش بہرکیف پوری ہوگئی، کیوں کہ یہاں تو ہر ایک ہی آنے والی ساعتوں کی چکا چوند میں گُم تھا۔
رنگ ونُور کا ایک سیلاب سا اُمڈ آیا تھا۔ لوگ جنوری کے استقبال کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے۔ اِک شور تھا، ہنسی تھی، قہقہے تھے۔ گھڑی کی سوئیاں جُوں جُوں آگے بڑھ رہی تھیں، لوگوں کا جوش و ولولہ بڑھتا جا رہا تھا اور یہ بہت اچّھا موقع تھا۔ سو، تم نے سارا بوجھ اپنے کاندھوں پرلادا اور چُپکے سے دہلیز کی جانب چل دیئے۔
تمہاری شیو بڑھی ہوئی، لباس ملگجا سا تھا۔ نہ جانے کیوں، دروازے سے باہر نکلتے ہوئےتم نے پیچھے بھی مُڑکر دیکھا تھا۔ مگر، تب تمہیں الوداع کہنے والا کوئی نہ تھا۔ تمہاری آنکھوں میں نمی اُتر آئی، لیکن چہرے پر اِک عجب سی مسکان تھی، جس کے پیچھے جانے کیسی کیسی داستانیں رقم تھیں۔