امزاء کرن
معروف سیاہ فام امریکی مصنّفہ، فلسفی اور پروفیسر، آڈرے لارڈ نے ایک موقعے پر یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’مَیں اُس وقت تک آزاد نہیں ہوں، جب تک کہ کوئی بھی عورت قید ہے، چاہے اُس کی زنجیریں میری زنجیروں سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔‘‘
عصرِ حاضر میں تہذیب یافتہ ممالک میں صنفی مساوات کو انسانی حقوق کے بنیادی اصول اور ترقّی کے اہم ستون کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، جب کہ پاکستان جیسے پس ماندہ معاشروں میں اس تصوّر کو آج بھی دقیانوسی خیالات اور فرسودہ روایات نے جکڑ رکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں صنفی عدم مساوات ایک پیچیدہ مسئلے کی شکل اختیارکرچُکی ہے،جو نہ صرف سماجی انصاف کے اصولوں کے خلاف، بلکہ ایک کڑا چیلنج بھی ہے۔ اس کا اندازہ اقوامِ متّحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس کے اس بیان سےبھی لگایا جا سکتا ہے کہ ’’اقوامِ عالم کو صنفی مساوات کے ہدف کے حصول کے لیے مزید 300 برس درکار ہیں۔‘‘
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صنفی مساوات انسانی حقوق کا بنیادی حصّہ ہے، تو پھر اِس کا اطلاق ہر معاشرے اور ہر طبقے پر کوئی نہیں ہوتا اور کیا یہ محض خام خیالی ہے؟ اس ضمن میں اگر ہم صرف پاکستان کا جائزہ لیں، تو 25 کروڑ نفوس کی آبادی پر مشتمل اس مُلک میں خواتین کا تناسب 49.58 فی صد ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر افرادی قوّت میں خواتین کی شمولیت صرف 20.73 فی صد تک محدود ہے اور یہ اعدادوشمار اس حقیقت کی عکّاسی کرتے ہیں کہ مُلک کی نصف آبادی اپنی سماجی اور اقتصادی شمولیت کے بنیادی حق سے ہی محروم ہے، جو کسی ترقّی پذیر معاشرے کی ترقّی میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ ایک ایسا معاشرہ دُنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا کہ جس کی نصف آبادی اپنے بنیادی حقوق اور ترقّی کے مواقع کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہی ہو۔ دوسری جانب پاکستان میں ہندو اور مسیحی خواتین آج بھی اپنے وراثتی حقوق سے محروم ہیں اور اس کی بنیادی وجوہ میں ان حقوق کی ضمانت دینے والے قوانین کا غیر مؤثر نفاذ اور قانونی ڈھانچے میں پائے جانے والی کم زوریاں ہیں۔
اس قسم کے مسائل سے نہ صرف اقلیتوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں بلکہ یہ پورے پاکستانی معاشرے میں صنفی عدم مساوات کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں حقوقِ نسواں کے تحفّظ کے لیے خدمات انجام دینے والے افراد اور اداروں سےاکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ خواتین انہی حالات میں بہتری کی جانب گام زن کیوں نہیں ہوسکتیں؟
لیکن یہ سوال کسی مَرد سے کیوں نہیں کیا جاتا؟ یاد رہے کہ صنفی مساوات کا مقصد صرف حقوق کی مساوی تقسیم نہیں، بلکہ ایسے مواقع، حالاتِ کار اور ماحول کی منصفانہ فراہمی ہے کہ جن کی موجودگی میں مَرد و خواتین دونوں ہی اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں بروئے کار لا سکیں۔
صنفی مساوات کا تصوّر اِس امر کا پابند کرتا ہے کہ کسی فرد کے ساتھ اُس کی جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے، لیکن ہمارے یہاں اس تصوّر کی حقیقی رُوح کو سمجھا جا رہا ہے اور نہ اسے اپنانے کے لیے کسی قسم کی سنجیدہ کوششیں ہی کی جا رہی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو درپیش گھریلو تشدّد، کم عُمری کی شادی اور ثقافتی تعصّبات جیسے مسائل نہ صرف اُن کی انفرادی ترقّی میں رُکاوٹ ہیں بلکہ ان سے قومی ترقّی کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ’’جینڈر گلوبل گیپ انڈیکس 2024‘‘ میں 146ممالک میں پاکستان 145ویں نمبر پر ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی خواتین کو بنیادی حقوق کے ضمن میں کس قدر رُکاوٹوں کا سامنا ہے۔
خواتین کی تعلیم تک محدود رسائی، علاج معالجے کی سہولتوں کی کمی اور معاشی عدم مساوات سمیت دیگر مسائل مل کر ایک ایسی صورتِ حال کو جنم دیتے ہیں کہ جو صنفی مساوات کے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے روکتی ہے۔
درحقیقت، ہمارے یہاں صنفی مساوات کا تصوّر محض نعروں تک محدود ہے۔ خواتین کے عالمی یوم سمیت دیگر مواقع پر حقوقِ نسواں سے متعلق آگہی فراہم کرنے کے لیے مختلف تقاریب تو منعقد کی جاتی ہیں، لیکن اس خوالے سے عملی طور پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کی نصف آبادی اپنی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔
اقوامِ متّحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا میں ہر تین میں سے ایک خاتون کو توہین یا تشدّد کا سامنا ہے اور اس ضمن میں پاکستان میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ بیکہ یہاں تو آئے روز خواتین پر تشدّد اور جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے۔
اس کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے بیش تر جرائم کا تعلق خواتین ہی سےثابت ہوتا ہے۔ نیز، پاکستانی سماج میں خواتین سے متعلق پائی جانے والی دقیانوسی سوچ اور فرسودہ روایات کے سبب بھی یہاں صنفِ نازک کوقدم قدم پر استحصال کا سامنا ہے۔
ایسے میں سوال تو اُٹھتا ہے کہ آخر کب تک ہمارے ہاں تکریمِ انسانیت کا معیار صنف کی بنیاد پر طےکیا جاتا رہے گا اور ایک عرصۂ دراز سے جاری یہ صنفی تفاوت آخر کب ختم ہوگا کہ بہرکیف، برابری و مساوات کسی جنس کی محتاج نہیں۔