روانڈا کا صدر تبدیل ہو تو شاید روانڈا پر بھی اثر نہ پڑے مگر جب امریکی صدر بدلتا ہے تو دنیا بدلتی ہے۔ امریکی صدر سمت کا تعین کرتا ہے، راستے بدلتا ہے، طاقت کے توازن ترتیب دیتا ہے، جان ایف کینیڈی کے بعد ڈونلڈ جے ٹرمپ دوسرا امریکی صدر ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف آیا ہے۔ ٹرمپ، کینیڈی سے دو ہاتھ آگے ہے کہ اس نے دونوں بار اسٹیبلشمنٹ کی حامی خواتین کو ہرایا، امریکی اسٹیبلشمنٹ ان خواتین کے حق میں بہت کچھ کرتی رہی، دونوں بار خواتین کو میڈیا اسٹار بنا کر پیش کیا گیا مگر دونوں بار ٹرمپ جیت گیا۔ جب تک آپ یہ سطور پڑھیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری ہو چکی ہو گی۔ اب دنیا کے سامنے وہ مرحلہ آ گیا ہے جس کا انتظار تھا۔ بڑے عرصے کے بعد بودی سرکار میرے ڈیرے پر آئے، وہی آتش مزاجی، جلالی طبیعت، آنکھوں میں سرخی، دوسروں پہ رعب ڈالنا اور اپنی بات منوانا۔ آج کل سردیوں کا موسم ہے، میں عام طور پر دھوپ میں بیٹھتا ہوں تو میرے ملنے والے بھی آکر اسی دھوپ میں بیٹھتے ہیں، جب کبھی بودی سرکار تشریف لاتے ہیں تو لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ بودی سرکار کی باتیں سنیں، یہ باتیں سننے کے لئے وہ تیکھے اور ترش سوال بھی کرتے ہیں، اکثر اوقات ڈانٹ بھی پڑتی ہے مگر سوالات کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، اس مرتبہ زیادہ سوال اللہ بخش ملوک اور کالے خان نے کئے، ابھی ملازم نے سامنے کینو مالٹے رکھے ہی تھے، بودی سرکار نے کینو کی فصل پر تبصرہ شروع کر دیا، اس میں لوگوں کی دلچسپی زیادہ نہیں تھی، وہ بودی سرکار سے سیاسی تبصرہ چاہتے تھے، ایک مالٹا کھانے کے بعد بودی سرکار نے بڑے جلال سے کہا " یہ حقہ میری طرف کرو!"۔ حقہ ان کی طرف کر دیا گیا، اب انہوں نے تمباکو پہ تبصرہ شروع کر دیا، آخر اللہ بخش سے نہ رہا گیا، سرکار! کوئی کام کی بات کریں، یہ سنتے ہی بودی سرکار کا غصہ مزید بڑھ گیا، کہنے لگے " اب میں کام کی باتیں نہیں کر رہا؟ میں بتا رہا ہوں کہ دنیا کے فلاں فلاں خطے میں تمباکو ہوتا ہے، کس کس نسل کا، کس کس مزاج کا اور میں تمہیں یہ بھی بتا رہا ہوں کہ پاکستان میں کہاں کہاں تمباکو ہوتا ہے، کیا یہ کام کی باتیں نہیں ہیں؟" کالے خان نے برفی کی پلیٹ سرکار کے سامنے رکھتے ہوئے کہا " دراصل اللہ بخش کا مقصد یہ ہے کہ آپ کوئی سیاسی بات سنائیں"۔ اب بودی سرکار قدرے رام ہو گئے اور کہنے لگے کہ "اس طرح تو نہ کہیں کہ کام کی بات سنائیں بلکہ یہ کہیں کہ سیاسی بات سنائیں۔ اب آپ نے کہا کہ سیاسی بات کریں تو چلو سیاسی باتیں کرتے ہیں، اب صوبوں اور ملکوں کی سیاست، عالمی سیاست سے جُڑی ہوئی ہے، عالمی سیاست میں تبدیلی آتی ہے تو ملکوں کے ملک بدل جاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہے امریکا میں نئی حکومت قائم ہو چکی ہے، حکومت کے قیام سے پہلے بہت شور اٹھا، چند برسوں سے امریکی سیاست میں ٹرمپ کا ڈنکا بج رہا ہے، امریکا کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے ٹرمپ کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی، مقدمات میں الجھایا، اس پر قاتلانہ حملے کروائے مگر وہ بہادر نکلا، وہ بھی چالیں چلتا رہا، اس نے ایسی چالیں چلیں کہ سیاسی مخالفین کے ساتھ مقتدرہ کو بھی شکست دے دی۔ اب امریکہ اس کی مرضی سے چلے گا، اس کی کوشش ہے کہ وہ امریکی شہریوں کے لئے بہتر سے بہتر کام کرے، امریکا سے مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ کر دے، اسے غیر قانونی طور پر امریکا میں رہنے والے پسند نہیں، وہ اس کے لئے بھی کچھ کرے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ امریکی مقتدرہ کو نکیل ڈالے گا، اس کے ساتھ جو بھی ہو، اسے اس کی بھی پروا نہیں، عالمی سطح پر وہ جنگوں کا خاتمہ چاہتا ہے، جمہوریت اور امن کے ساتھ انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی چاہتا ہے، وہ عوام کے سامنے مقتدرہ کے چند کرداروں کو اہمیت نہیں دیتا ، اس کے نزدیک عوام اور عوامی لیڈرز اہم ہیں، دنیا میں سیانے اور عقل مند لوگوں کی کمی نہیں، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو بہت سیانے نکلے کہ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کے نفاذ سے پہلے استعفیٰ دے کر چلے گئے۔ نیتن یاہو کو ایک ایلچی نے پیغام دیا تو اس نے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کر دیئے حالانکہ پہلے وہ اسی سلسلے میں بات نہیں مان رہا تھا، اس کا مطلب ہے کہ طاقتور ملکوں کو بھی ٹرمپ سے خوف آتا ہے۔ دنیا میں بے وقوفوں کی بھی کمی نہیں، کئی ملکوں کی مقتدرہ یہ سوچ رہی ہے کہ ہم انہیں کوئی نہ کوئی چکر دے دیں، ان کے لئے دو حرفی بات ہے کہ بابا! جہاں حسٹن ٹروڈو اور نیتن یاہو چکر نہ دے سکے تو وہاں آپ کیا چکر دے سکتے ہیں؟ اب ہم اپنے ملک کی طرف دیکھیں تو یہاں ایک مقبول ترین لیڈر پر اسی طرز کے مقدمات ہیں، جیسے ٹرمپ پر تھے، وہاں کیپٹل ہل تھا، یہاں 9 مئی اور 26 نومبر ہیں۔ وہاں ٹرمپ پر قاتلانہ حملے ہوئے تو یہاں بھی مقبول ترین عوامی لیڈر پر گولیاں چلائی گئیں، ٹرمپ انصاف کی تلاش میں اقتدار کے سنگھاسن پر پہنچ گیا ہے مگر وہ یہ تو جانتا ہے کہ کس طرح جھوٹے مقدمات قائم ہوتے ہیں؟ کس طرح قاتلانہ حملے ہوتے ہیں؟ اسے بتانے والوں نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ کئی ملکوں میں الیکشن چوری کیسے ہوتے ہیں؟ انسانی حقوق کی پامالی کیسے ہوتی ہے؟ ظلم و جبر کس طرح ہوتا ہے؟ کس طرح نا انصافیاں ہوتی ہیں؟ اور کس طرح وہاں کے طاقتور حلقے ظلم و تشدد کا ساتھ دیتے ہیں۔ اسے پاکستان کے سیاسی حالات کے متعلق بہت کچھ بتایا جا چکا ہے، اسے یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ قیدی کے مخالف سیاستدان، قیدی کو تمہارے ساتھ تشبیہ دیتے تھے، تمہاری اور اس کی مثالیں دے کر تقریریں کرتے تھے، ٹویٹ کرتے تھے اور جب سے تم منتخب ہوئے ہو وہ اپنی تقریروں اور ٹویٹس پر مٹی ڈالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب میں آپ کو کیا بتاؤں کہ وہ کیا کچھ کرے گا۔ میں نے ساری صورتحال تمہارے سامنے رکھ دی ہے اور تمہیں صاف صاف بتا دیا ہے کہ ٹرمپ اور اس کے ساتھی راستے کے پتھر برداشت نہیں کرتے"۔ آخر میں آپ کے ادبی ذوق کیلئے سابق بیوروکریٹ اکرم سہیل کے دو اشعار جو انہوں نے سمندر میں ڈوبنے والوں کے حوالے سے تحریر کئے ہیں کہ
روزگار مل سکا نہ دھرتی پر
ختم دھرتی سے ہوئیں یادیں بھی
وہ سمندر میں جا کے ڈوب گئے
ماؤں کو مل سکیں نہ لاشیں بھی