پاکستانی عدلیہ کا یہ رجحان، نیا نہیں کہ سیاست دانوں کو تختہ مشق بنایا جائے۔ ماضی میں بھی عدلیہ کے فیصلوں نے سیاسی منظر نامہ تبدیل کیا،اکثر اوقات ان فیصلوں کا مقصد قانون کی حکمرانی کے فروغ کے بجائے سیاسی فوائد اور نقصانات کا تعین کرنا ہوتا ہے۔پاکستان کی سیاست میں 1990ءکی دہائی میں کئی ایسے فیصلے سامنے آئے کہ جن کے نتیجے میں آج کے حکمران عتاب کا شکار ہوئے۔ لیکن جس طرح تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا اسی طرح آج کی حکمران اشرافیہ نے بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور ایک مرتبہ پھر عدالتی فیصلے کے ذریعے ایک سیاستدان کو شکست دینے کی کوشش کی۔ایسے سیاسی فیصلوں نے پاکستان کی سیاست پر اثرات مرتب کیے اور سماجی و معاشی سطح پر مشکلات پیدا کی ہیں۔ کیونکہ ان فیصلوں کی بنیاد قانون کے بجائے سیاست پر استوار ہوتی ہے۔ 190ملین پاؤنڈ کے ریفرنس کے حوالے سے تازہ فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو،قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔لیکن عوامی سطح پر مختلف سوالات اس فیصلے کا پیچھا کر رہے ہیں، کیونکہ اس کی بنیادوں میں کوئی ٹھوس قانونی وجوہ موجود نہیں۔اس فیصلے کی ساکھ اس لیے بھی مجروح ہو چکی ہے کہ کئی دن قبل کئی سینئر صحافی یہ فیصلہ افشا کر چکے تھے۔عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی سینئر لیڈر شپ بھی اس سے آگاہ تھی۔عدالتی فیصلوں کے ذریعے مقبول رہنمائوں کو سبق سکھانے کا سلسلہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی سیاست دانوں کو عدالتی فیصلوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ماضی میں میانمار کی ایک خصوصی عدالت نے آنگ سان سو چی کو قید کی سزادی۔بنگلہ دیش کے موجودہ چیف ایگزیکٹو نوبل انعام یافتہ محمد یونس جنوری 2024 ءمیں بنگلہ دیش کی ایک عدالت سے سزا کے مستحق قرار پائے۔تھوڑی دور جائیں تو نیلسن منڈیلا بھی سامراجی عدالتوں سے سزا یافتہ ہوئے اور طویل قید کاٹی۔جبکہ پاکستان میں تو سیاسی سزاؤں کی ایک طویل تاریخ ہے۔بھٹو کی پھانسی ہو یا نواز شریف کی نا اہلی، محترمہ بے نظیر بھٹو پر الزامات ہوں یا آصف علی زرداری پر بنائے گئے مقدمات،یوسف رضا گیلانی ہوں یا شاہد خاقان عباسی’'تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ‘کی عملی تصویر دکھائی دیتے ہیں۔ان سب سزاؤں میں ایک قدر مشترک ہے کہ یہ سزائیں کسی کی سیاست ختم نہ کر سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح یہ ہتھکنڈے ان سیاستدانوں کی مقبولیت کو نہیں توڑ سکے، سیاسی کیریئر ختم نہیں کر سکے اسی طرح یہ فیصلہ بھی عمران خان کو سیاسی طور پر ختم نہیں کر سکے گا۔ایک طرف تو عمران خان کے خلاف دھڑا دھڑ فیصلے سنائے جا رہے ہیں تو دوسری اڈیالہ سے تھوڑی دور پس پردہ اور سرعام مذاکرات بھی جاری ہیں لیکن سب سے بڑا بریک تھرو یہ ہوا کہ بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور نے چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقات کی۔اگرچہ حکومتی کار پردازوں نے اس ملاقات کو خیبر پختون خوا کی سیکورٹی صورتحال سے جوڑا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ پی ٹی آئی کیلئے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات اور ملاقات کا دروازہ کھلنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں وہ کچھ ہونے جا رہا ہے جس کی توقع پورا ملک کر رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن (جسے اداروں کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے)کی حکومت بد انتظامی اور سیاسی بیانیہ نہ ہونے کی وجہ سے ڈیلیور کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے اور اس کا سارا بوجھ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر آ رہا ہے۔شہباز شریف اپنی حکومت افسر شاہی کے ذریعے چلا رہے ہیں۔سیاسی لوگوں کے ساتھ انکے روابط کی وہی صورت حال ہے جو ماضی میں رہی ہے۔میاں نواز شریف کچھ لمحوں کیلئے نمودار ہوتے ہیں پھر گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں۔اپنی جماعت کی عدم مقبولیت سے پریشان بھی ہیں۔محترمہ مریم نواز محنت کر رہی ہیں لیکن افسر شاہی نے انہیں ایسے کاموں میں مصروف کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ کسی تعمیری کام کی طرف توجہ نہیں دے پا رہیں۔پنجاب میں اسکولوں اور کالجوں کے غیر ضروری دوروں میں الجھا دیا گیا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے انکی شخصیت سازی کی کوشش کی جا رہی ہے اور پذیرائی کا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن صوبے کے حالات بدستور ابتر ہیں۔ شاہراہوں پر قتل و غارت ہو رہی ہے۔چوریوں اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ تھانے، پٹوار خانے اور سرکاری دفاتر عوام الناس کیلئے شجر ممنوعہ کی مانند ہیں اور رشوت کے چابی کے علاوہ کسی دفتر کا دروازہ نہیں کھلتا۔عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کیلئے اپنے دروازے کھولے ہیں اور آئندہ چند مہینوں میں اگر مسلم لیگ کی حکومت نے گڈ گورننس کا مظاہرہ نہ کیا یا کوئی سیاسی بیانیہ تشکیل نہ دیا تو کوئی بعید نہیں کہ اعلیٰ ترین ایوانوں میں تبدیلی آجائے۔ اس صورت حال میں بانی پی ٹی آئی کو چاہئے وہ چوہدری پرویز الٰہی، صدر عارف علوی،اور فواد چوہدری جیسے سیاسی رہنمائوں کو مذاکراتی عمل میں شامل کریں۔ مذاکرات ایک قومی سیاسی جماعت کی طرح کئے جائیں۔ جمہوری عمل میں غیر جمہوری عناصر کی حوصلہ شکنی پر بات کی جائے۔مذکورہ افراد سرد گرم چشیدہ سیاستدان ہیں۔انہیں اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی ہے۔انکی مشاورت اور مذاکرات میں شرکت سے نہ صرف تحریک انصاف کیلئے آسانیاں پیدا ہوں گی بلکہ ملک کے سیاسی ماحول میں بھی بہتری نظر آئے گی۔لیکن یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ اب تبدیلی زیادہ دور نہیں۔