• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینچوں کے اختیارات کے کیس کا 26ویں آئینی ترمیم سے کوئی لینا دینا نہیں: جسٹس منصور علی شاہ

سپریم کورٹ آف پاکستان—فائل فوٹو
سپریم کورٹ آف پاکستان—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بینچز کے اختیارات کے کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کے کیس میں ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس کو تحریری جواب آج ہی جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

بینچز کے اختیارات کا کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل بینچ نے کی۔

دورانِ سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے وہ 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواست گزاروں کے وکلاء ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیس ریگولر بینچ سن رہا تھا، کیا کمیٹی اسے شفٹ کر سکتی ہے؟ کیس آرٹیکل191 اے کا ہے جس میں چند کیسز ٹیکس سے متعلق بھی تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کیس کا بیک گراؤنڈ پڑھا

جسٹس منصور علی شاہ نے دورانِ سماعت کیس کا بیک گراؤنڈ پڑھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس سے کہا کہ رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار کے دفاع میں کہا سب دو ججز کمیٹی کے فیصلے کی وجہ سے ہوا، آپ نے کازلسٹ سے کیس کیوں ہٹایا؟ کوشش کریں کہ آج ہی اپنا تحریری جواب جمع کرا دیں، کیس کا تعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اختیارات سے ہے نہ کہ 26ویں آئینی ترمیم سے، آپ چاہ رہے ہیں کہ پلڑہ بھاری نہ ہو۔

اور کوئی معاونت کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے: جسٹس عقیل عباسی

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اور کوئی معاونت کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں عدالت کا بہت محدود اختیار سماعت ہے، شوکاز نوٹس جسے جاری کیا گیا اس کا تحریری بیان جمع ہونا چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارا مقصد تو ایسا نہیں تھا لیکن ہم جاننا چاہتے تھے کیس کیوں واپس ہوا، آپ کے ساتھ بھی کچھ ہوا ہے، پتہ نہیں آپ کا اس میں کتنا کردار ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کرمنل اوریجنل اختیار سماعت کے تحت یہ معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہے، جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے، وہ 26ویں ترمیم چیلنج کرنے والے وکلاء ہیں۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ کی رائے درست ہے، ہمیں اس بات کا ادراک بھی ہے۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چلیں ہم اسی گروپ میں سے کسی اور کو بھی عدالتی معاون مقرر کر لیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت اب بینچ بنانے کا اختیار آئینی کمیٹی کو ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کیس کا 26 ویں آئینی ترمیم سے کوئی لینا دینا نہیں، اگر خود سے ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ مسکرا رہے ہیں، عدالتی معاون کے لیے کوئی نام تجویز کر دیں۔

اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میں کوئی نام تجویز نہیں کر رہا، کسٹم ایکٹ کا مرکزی کیس آپ کے سامنے نہیں ہے ابھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کا ہے، بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جاسکتا ہے؟ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو سوال عدالت نے اٹھایا ہے وہ توہین عدالت کیس میں نہیں سنا جا سکتا۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نذر عباس کے دفاع میں کمیٹی کے فیصلے پیش کیے گئے تھے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نذر عباس کا تحریری جواب آنے تک رجسٹرار کا مؤقف ان کا دفاع قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مقدمہ مقرر نہ کرنے سے معلوم نہیں نذر عباس کا کتنا تعلق ہے،  نذر عباس صاحب آپ کے ساتھ بھی کچھ ہو گیا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں بطور پراسیکیوٹر پیش ہو سکتا ہوں، قانونی سوال پر عدالت کی معاونت 27 اے کے تحت کر سکتا ہوں، توہین عدالت کیس میں بطور اٹارنی جنرل میری پوزیشن مختلف ہے۔

کوئی کیس چل رہا ہو تو اسے واپس نہیں لیا جا سکتا: عدالتی معاون

عدالتی معاون وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ پشاور میں بھی ایسے بینچ تبدیل ہوا تھا تو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نوٹ لکھا تھا، سپریم کورٹ میں جو روسٹر ایک دفعہ بنتا ہے وہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، یہاں ایک کیس کی سماعت ایک بینچ کرتاہے، درمیان میں بینچ تبدیل ہوتا ہے اور کبھی بینچ سے معزز جج کو بھی تبدیل کر دیا جاتا ہے، کوئی کیس چل رہا ہو تو اسے بینچ سے واپس نہیں لیا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مطلب کہ اگر کوئی کیس شروع ہوگیا ہو تو پھر واپسی نہیں ہے۔

وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ کہیں سوال اٹھے گا تو کیس واپس لیا بھی جاسکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال اس صورت میں اٹھے گا اگر کیس بینچ کے سامنے نہ ہو۔

وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ پہلے تمام کیسز سیکشن دو کی کمیٹی کے پاس جائیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تک ایسا ہی ہوا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ہی ریگولر بینچز بنائے گی، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی بینچ تبدیل کر سکتی تھی اگر کیس کسی کورٹ میں نہ ہو۔

وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ آئینی بینچ کو جوڈیشل کمیشن نے نامزد کرنا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سارے کیسز پہلے مرکزی کمیٹی میں جائیں گے۔

وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سارے کیسز پہلے آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھیجے جائیں، مطلب اوورلیپنگ ہمیشہ رہے گی، یہ معاملہ فل کورٹ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے۔

عدالتی معاون منیر اے ملک کی بھی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز

عدالتی معاون منیر اے ملک نے بھی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دے دی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ہم توہین عدالت کا کیس سنتے ہوئے فل کورٹ کا آرڈر کر سکتے ہیں؟

عدالتی معاون وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ کمیٹی کا فیصلہ بطور دفاع پیش کیا گیا ہے، کمیٹی اختیار پر عدالت فل کورٹ آرڈر کر سکتی ہے، آئینی بینچ سپریم کورٹ کا صرف ایک سیکشن ہے، سپریم کورٹ آنے والے کیسز کو پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو ہی دیکھنا چاہیے، 3 رکنی کمیٹی کو طے کرنا چاہیے کون سے کیسز آئینی بینچ کو بھیجنے ہیں، میری رائے ہے کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو انتظامی آرڈر سے ختم نہیں کر سکتی، کل جاری ہونے والی پریس ریلیز میں نے دیکھی ہے، کہا گیا کہ پہلے کیس غلطی سے موجودہ ریگولر بینچ میں لگ گیا، اگر یہ غلطی تھی تب بھی اس پر جوڈیشل آرڈر لاگو ہو چکا، جوڈیشل آرڈر لاگو ہو چکا جس کو دوسرا جوڈیشل آرڈر ہی بدل سکتا ہے، یہ معاملہ اب عدلیہ کی آزادی سے جڑا ہے،  معاملہ ہمیشہ کے لیے حل فل کورٹ سے ہو سکتا ہے، ایک جوڈیشل آرڈر کو انتظامی حکم سے بدلا نہیں جا سکتا، سیکشن 2 اے کے تحت فل کورٹ کی تشکیل کے لیے معاملہ انتظامی کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ منیر اے ملک یہ بتائیں کیا توہینِ عدالت کیس میں ہم ایسا کوئی حکم جاری کر سکتے ہیں؟

عدالتی معاون وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے طے ہونا چاہیے کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی سے جڑا ہے۔

عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ جوڈیشل آرڈر کو انتظامی کمیٹی ختم نہیں کر سکتی، 21 جنوری کے عدالتی حکم میں سوالات عوامی اہمیت کے ہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان آرٹیکل 175 اے کے تحت تشکیل دی گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 176 میں سپریم کورٹ کی تعریف بیان کی گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 176 کے تحت سپریم کورٹ چیف جسٹس اور دیگر ججوں پر مشتمل ہو گی، سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد ایکٹ آف پارلیمنٹ طے کرے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ہنستے ہوئے حامد خان سے سوال کیا کہ کیا ہم دیگر ججوں میں آتے ہیں۔

اٹارنی جنرل صاحب کیا ہم جج ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ

انہوں نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا ہم جج ہیں؟ ازراہ تفنن بات کر رہا ہوں، ایسے حالات میں پوچھنا پڑتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دیگر عدالتی معاونین کو کل سنیں گے۔

بینچز اختیارات سے متعلق کیس مقرر نہ کرنے کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

قومی خبریں سے مزید