• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

بینچز کے اختیارات کا کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل بینچ نے کی۔

منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سماعت مکمل ہو گئی ہے، فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔

سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی؟

عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ کچھ ججز کو کم اختیارات ملنا اور کچھ کو زیادہ، ایسا نہیں ہو سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سوال الگ ہے، اگر ہم آرٹیکل 191 اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا تھا، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کریں تو معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے، اس سوال پر معاونت دیں۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر کنفیوژن تو ہے، 

جسٹس عقیل عباسی نے حامد خان سے سوال کیا کہ آپ آرٹیکل 191 اے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ ماضی میں بینچز ایسے بنے جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کا سوال آجائے گا۔

کیا کسی ملک میں بینچز عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بناتا ہے؟ جسٹس منصور

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا کسی ملک میں بینچز عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بناتا ہے؟ کوئی ایک مثال ہو؟

وکیل حامد خان نے کہا کہ بینچز عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بنائے ایسا کہیں نہیں ہوتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 191 اے کے تحت آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن بنائے گا۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ 191 اے کو سامنے رکھیں تو کیا یہ اوور لیپنگ نہیں ہے؟

وکیل حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کمزور نہیں کر سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کمیٹی جوڈیشل آرڈر فالو نہیں کرتی تو پھر کیا ہو گا؟ 

عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس آئینی بینچ کے کیسز مقرر کرنے کا اختیار ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ راجہ عامر کیس میں بھی فل کورٹ بنا تھا۔

حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے علاوہ ہر عدالت کے دائرہ اختیار کا فیصلہ کر سکتی ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو کم نہیں کر سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 2 اے کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں؟ کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کر سکتی ہے؟ 

وکیل حامد خان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کرنے والی صورتِ حال نہیں ہونی چاہیے

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980ء کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس بنائیں گے یا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی؟ کیا جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوایا جاسکتا ہے؟

وکیل حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے، کم نہیں کر سکتی، آرٹیکل 191 اے میں آئینی بینچز کا ذکر ہے، سپریم کورٹ میں ایک آئینی بینچ کا ذکر نہیں، کم از کم 5 ججز پر مشتمل ایک آئینی بینچ ہو سکتا ہے، اس صورتِ حال میں 3 آئینی بینچز بن سکتے ہیں، جو سینئر ہو گا وہی بینچ کا سربراہ ہو گا، آرٹیکل 191 اے ججز کمیٹی کے سیکشن 2 اے سے ہم آہنگ نہیں اس لیے خلاف آئین ہے۔

عدالتی معاون احسن بھون نے کہا کہ آئین میں 26ویں ترمیم میں اختیارِ سماعت طے کر دیے گئے ہیں، آئین اور قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ آئینی بینچ ہی لے سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ ہمارے حکم میں یہ لکھا ہے کہ 191 اے قانون کے مطابق ہے یا نہیں، بھون صاحب دنیا کی کوئی مثال بتا دیں جہاں بینچ عدلیہ کے سوا کوئی اور بناتا ہو، ہم تو صرف اس سوال کا جائزہ لے رہے ہیں۔

معاون وکیل احسن بھون نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی ہے، آئین ہے تو اس پر آپ کو عمل کرنا ہو گا، آپ اس کا جائزہ بھی نہیں لے سکتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ترمیم کو ہم دیکھ بھی نہیں سکتے؟ اگر جائزے کی جسارت کی کہ 191 اے قانونی ہے یا نہیں تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ جوڈیشل آرڈر جوڈیشل آرڈر سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اگر بینچ غلطی سے سن بھی رہا ہو تو اس بینچ سے چھین لیں۔

وکیل احسن بھون نے کہا کہ ایسی صورت میں آپ یہ معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوائیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمیٹی تو ایک ایگزیکٹو کمیٹی ہے۔

عدالتی معاون وکیل احسن بھون نے کہا کہ یہ ایک آئین کی اسکیم ہے، 26ویں ترمیم ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ کا فیصلہ ہے، فل کورٹ بنانے کی ابھی جس کیس کی مثال بیرسٹر صلاح الدین نے دی، موجودہ آئینی اسکیم میں ان کا اطلاق نہیں ہوتا وہ بے کار ہو چکے ہیں، جناب جسٹس منصور اس ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، اب آپ اس میں بیٹھیں یا نہیں یہ آپ کی مرضی ہے، آئینی بینچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن پاکستان نے کی ہے، آپ بھی کمیشن میں جج نامزد کرتے ہیں۔

نذر عباس نے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کروا دیا

ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس نے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کروا دیا۔

ذرائع کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے عدالت سے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کر دی۔

ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے کہا ہے کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی، عدالتی حکم پر بینچ بنانے کے معاملے پر نوٹ بنا کر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔

قومی خبریں سے مزید