میں اس دن ریڈیو پر منو بھائی کے ساتھ ہفتہ وار کرنٹ افیئر کا پروگرام کرکے گھر واپس آئی اور سیدھی آنٹی افضل توصیف کے کمرے میں گئی سفید گچھا سے بال اور چہرے پر ایک اجنبیت لیے ہوئے وہ اپنے بستر پر نیم دراز تھیں۔ منو بھائی آپ کا حال پوچھ رہے تھے انہوں نے آپ کو سلام بھیجا ہے ’’منو بھائی ابھی زندہ ہے‘‘ انہوں نے اپنے لہجے میں ڈھیر ساری حیرانی بھر کے پوچھا ’’اب تو سب مر مرا گئے ہیں مگر وہ ابھی بھی زندہ ہے‘‘ ان سے ایسے ہی کسی جواب کی توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ خود اس وقت اپنی زندگی کی داستان کا ایک گمشدہ کردار ہو چکی تھیں۔ وہ خود کو بھی پہچانتی نہ تھیں اور نہ ہی اپنے آس پاس کی حقیقتوں کے ساتھ ربط میں تھیں۔ اگلی بار ریڈیو پر منو بھائی سے ملاقات میں یہ بات انہیں سنائی وہ دیر تک ہنستے رہے۔ انہوں نے سچ مچ اس بات سے بہت لطف اُٹھایا۔ چند مہینوں بعد آنٹی افضل توصیف تین سال کی بیماری اور خوابوں کی نارسائی سمیت 30دسمبر2014 کو اگلے جہان سدھار گئیں۔ پنجابی ادبی بورڈ میں ان کے تعزیتی ریفرنس میں منو بھائی نے انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا اور رخصت ہو جانے والے ہم عصروں کو یاد کیا۔ کہا کہ میرے آس پاس کے لوگ رخصت ہو چکے ہیں پھر افضل توصیف کی وہی بات دہرائی کہ میں نے افضل توصیف کو سلام بھیجا تو جواب میں اس نے کہا ’’منو بھائی ہجے جیوندا اے؟‘‘۔ منو بھائی نے یہ واقعہ وہاں بڑے دلچسپ انداز میں سنایا وہ واقعی ایک زندہ دل انسان تھے زندگی کی مشکلات اور معاشی مسائل سے بھی وہ اس خوش دلی سے گزرے کہ فیض کے مصرعے کی تجسیم ہو گئے۔ وہ شان سلامت رہتی ہے۔ ایک بار اتنے بیمار ہوئے کہ 20دن وینٹی لیٹر پر موت کی گود میں پڑے رہے۔ اخبارات ان کی وفات پرا سپیشل ایڈیشن کی تیاری کرنے لگے۔ ٹی وی چینلوں پر ان کے انٹرویو دوبارہ چلنے لگے، لگتا تھا کہ بس یہ خبر آئی کہ آئی کہ منو بھائی اگلی دنیا کو سدھار گئے ہیں لیکن منو بھائی سب کی توقعات کے برعکس زندگی کی طرف لوٹ آئے اور سب کو حیران کر دیا۔ 20دن وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد صحت کچھ بحال ہوئی ریڈیو اپنے پروگرام میں شرکت کیلئے آئے۔ اس روز ریڈیو کا ہر چھوٹا بڑا ملازم اور افسر گیٹ پر ان کے استقبال کو کھڑا تھا۔ ریڈیو کے قدیم در و دیوار نے بھی بڑھ کر انہیں گلے لگایا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے آنے سے ریڈیو بھی سج جاتا تھا ان کی خوش دلی تو اس وقت بھی قائم تھی جب وہ سچ مچ اپنے بستر مرگ پہ موجود تھے حالت بتاتی تھی کہ ’جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا کہ شام گیا‘۔ گرمیوں کے دن تھے ان کی عیادت کیلئے ریواز گارڈن ان کے گھر گئی عجیب منظر تھا وہ پلنگ پر سیدھے لیٹے ہوئے، آنکھیں چھت کو لگی تھیں خاندان کے لوگ پلنگ کے آس پاس متفکر چہروں کے ساتھ موجود تھے، اہلیہ سورہ یاسین کی تلاوت کر رہی تھیں کوئی بہ آواز بلند کلمہ پڑھ رہا تھا، عجیب منظر تھا لگتا تھا موت کا فرشتہ یہیں کہیں کونے میں کھڑا ہے۔ کسی نے بتایا سعدیہ قریشی آئی ہے تو بلا مبالغہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی انہوں نے کہا کیا حال ہے سعدیہ میرے دوستوں کو میرا سلام دینا، پھر دانیال کا پوچھا اور کہا میرا دوست کا کیا حال ہے؟ دانیال کیلئے ہمیشہ میرا دوست کا صیغہ استعمال کرتے تھے۔ موت کے کنارے پر کھڑا ایک بوڑھا بیمار شخص بستر مرگ پر بھی اس شائستگی کا اظہار کرے یہ منظر حیران کن تھا۔ اس کے کم و بیش چھ ماہ کے بعد منو بھائی 19جنوری2017 کو اگلے جہان سدھار گئے19 جنوری 2025 کو انہیں لوگوں نے محبت سے یاد کیا۔ وہ سچ مچ ایک عوامی انسان تھے وہ ہر ایک کے ساتھ بہت محبت کا تعلق بنا لیتے تھے۔ انکی شخصیت میں ایک ایسا جادو تھا کہ جو ملنے والوں کو اپنا بنا لیتا۔ صحافت اور ادب کی لائم لائٹ میں زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے دیانت داری اور درویشی کا راستہ اپنائے رکھا۔ آخری سانس تک ریواز گارڈن کے اسی گھر میں مقیم رہے۔ کسی نے پوچھا منو بھائی آپ کے ساتھ والے تو ڈیفنس شفٹ ہو گئے آپ کیوں شفٹ نہ ہوئے؟ منو بھائی چہرے پر اپنی روایتی مسکراہٹ سجا کر بولے کیونکہ ہم ڈیفنس والے نہیں ہم اوفنس (Offence)والے ہیں۔
جنوری کی 24 تاریخ ارشاد احمد حقانی صاحب کی وفات کا دن ہے وہ ایک عظیم صحافتی دانشور تھے ان کے اندر ایک ایسے مومن کو دیکھا جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص سطح پر روحانی ربط میں تھا جو عام لوگوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ آج بھی مجھے یہ بات حیرت میں مبتلا کرتی ہے کہ ان کو اپنے دنیا سے جانے کا علم ہو گیا تھا اور انہوں نے اپنے اعزاز میں ہونے والی تقریب کو یہ کہہ کر ملتوی کروایا کہ میں اس مہینے دنیا میں نہیں رہوں گا اور پھر ایسا ہی ہوا دنیا سے اپنی رخصتی کا روحانی احساس ہوتے ہی انہوں نے اپنی کتابیں، مختلف لائبریریوں کو دینا شروع کر دیں۔ اپنی ملکیت میں موجود عمدہ کوالٹی کے کپڑے سوئٹر سب بانٹ دئیے۔ مسافر روانگی سے قبل سامان سمیٹ رہا تھا کہ اسے گاڑی کے چلنے کا یقین تھا پھر بالکل ویسا ہی ہوا کہ کچھ ہی عرصے کے بعد وہ واقعی دنیا سے چلے گئے۔ حقانی صاحب عوامی شخص نہیں تھے جنگ میں بھی کوئی ان کے ساتھ سلام دعا کم ہی کیا کرتا تھا کیونکہ وہ اپنے طرز کے آدمی تھے بہت سے لوگوں کو ان سے گلہ بھی ہے کہ شاید وہ مغرور تھے یا خود پسند تھے ایسا ہرگز نہیں ہےوہ کم آمیز تھے مگر بہت شفیق اور خیال رکھنے والے انسان تھے۔ میرے حصے میں ان کی بڑی توجہ اور شفقت آئی۔ یادوں کا ایک خزانہ میرے پاس محفوظ ہے کالم میں اسے بیان کرنے کی جگہ نہیں۔ جاتی ہوئی سردیوں کے ان دنوں میں گزرے ہوئے ان خوبصورت بے مثال شخصیات کا تذکرہ اس لیے بھی آیا کہ جنگ سے دوبارہ وابستگی نے میرے اندر ناسٹلجیا کے تار چھیڑ دیئے، سو کالم کی صورت یاد کے بے ربط ٹکڑے، قارئین کی نذر۔