• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے جس سے مشرقِ وسطیٰ میں 16ماہ سے جاری جنگ کے ممکنہ خاتمے کا راستہ کھل گیا ہے۔ قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے دوحہ میں پر یس کانفرنس کے ذریعے عالمی برادری کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پانے کی خبر دی ۔ یہ وضاحت حوصلہ افزا ہے کہ امریکہ، مصر اور قطر مذکورہ معاہدے کی نگرانی کریںگے۔ 7اکتوبر 2023ء کے بعد15ماہ سے زائد عرصے میں اس جنگ میں 46ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ کو زخمی کیا جا چکا ہے۔ دوسری جانب مزاحتمی گر وپوں کی کارروائیوں میں 405صہیونی فوجی مارے گئے اور اسرائیل کے اندر 1200سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ اس جنگ میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو تہران میں جبکہ دوسرے سربرا ہ یحییٰ سنوار کو غزہ میں شہید کیا گیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سیز فائز کے پہلے مرحلے میں 6ہفتوں کی فائر بندی ہو گی جبکہ 33اسرائیلی قیدیوں کے بدلے تقریبا 2ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جن میں 250وہ فلسطینی بھی شامل ہیں جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے اسرائیلی فوجیوں کا بدستور غزہ سے انخلا ہو گا ۔ اسرائیل مصر کی رفح کی راہداری کو کھول دے گا۔ ابتدائی طور پر امدادی اور طبی سامان سے لدے 600ٹرکوں کو رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں جانے کی اجازت دی جائیگی۔ غزہ سے بے گھر ہونے والے 20لاکھ فلسطینیوں میں سے کچھ کی اپنے گھروں کو واپسی کا انتظام کیا جائے گا یا ممکنہ طور پر اس ملبے تک واپسی کا انتظام جو کبھی فلسطینیوں کے گھر ہوا کرتے تھے۔ جنگ بندی کے آغاز کے ساتھ ہی فلسطینیوں کے چہرے کھل اُٹھے بڑی تعداد میں شہری سٹرکوں پرامڈ آئے۔ غزہ خان یونس، رفح میں جشن کاسماں، بچوں کی خوشی، شہریوں کا ڈھول کی تھاپ پر رقص قابل دید ہے۔

درحقیقت جنگ کی سب سے بڑی قیمت اقتصادی طور پر ہی ادا کرنا پڑتی ہے جو عوام ادا کرتے ہیں کہ عوام جان سے بھی جاتے ہیں اور ان کے گھر بار، روزگار بھی تباہ ہو تے ہیں۔ اس جنگ نے اسرائیل تقریبا 60ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا جب کہ اسکی کل سالانہ آمدنی 530ارب ڈالرز ہے یہ اس کی طویل ترین جنگ ہے، ورنہ وہ ہمیشہ اپنی جنگیں دنوں اور ہفتوں میں نمٹا تا رہا ہے۔ اسرائیل کی کل آبادی نوے لاکھ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں عام لوگوں کی جنگ میں شمولیت اور اتنے لمبے عرصے تک اپنے اصل کا م کاج چھوڑنے سے مختلف شعبے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے مطابق جنگ کی وجہ سے 2025ء میں اسرائیل کا معاشی خسارہ بڑھ کر 7.8فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے جو 2023ء میں 4.1فیصد تھا۔ بینک آف اسرائیل نے گزشتہ برس مئی میں اندازہ لگایا تھا کہ جنگ پر ہونے والے اخراجات اگلے سال کے آخر تک 66ارب ڈالر ہوں گے۔ یہ اسرائیل کی جی ڈی پی کا تقریباً 12فیصد بنتا ہے۔ امریکا دنیا کی سپر پاور ہے لیکن اسرائیل امریکی حکمرانوں کو بھی اپنے قابو میں رکھتا ہے ۔

فلسطین ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول ،بیت المقدس واقع ہے اور جہاں سے پیغمبر اسلام ﷺ نے معراج کا سفر کیاتھا۔ فلسطین کی زمین مسلمانوں کیلئے نہ صرف مذہبی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ ایک تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ تقریباً 80سال سے فلسطینی عوام اپنی زمین اور حقوق کیلئے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں لیکن اسرائیل کی فوجی طاقت اور بین الاقوامی حمایت کے باعث فلسطینی عوام کو بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ غزہ کو بمباری سے تباہ برباد کرنے کے بعد اسرائیلی افواج لبنان پر چڑھائی کر چکی ہیں۔امریکا ،فرانس ،برطانیہ اور دوسرے مغربی ملک کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیتے رہیں ہیں ۔

لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے اور یہ مسئلہ عالمی سطح پر ایک انسانی اور سیاسی بحران بن گیا۔ اسلامی تعاون تنظیم بس رسمی سے اجلاس منعقد کرتی رہی۔ مسلم امہ کی خاموشی کی بڑی وجوہات معاشی مفادات، داخلی تنازعات اور عالمی دبائو ہیں لیکن سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مسلم امہ کی بے حسی ہے۔ بہت سے ممالک نے اقتصادی اور سیاسی مفادات کی خاطر اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس تمام بے حسی کے باوجود فلسطینی عوام اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق دنیا میں امن کے قیام اور جنگوں کے خاتمے میں اپناعالمی کردار ادا کریں۔ ایک زمانہ جانتا ہے کہ امریکا ہی وہ طاقت ہے جو صہیونی ریاست کی ہر طرح سے پشت پناہی کرتی ہے۔ ڈالر سے لے کر اسلحے کی فراہمی تک امریکا کی مدد گاری اسرائیل کے حوصلے بلند کرتی ہے اور وہ نہتے مظلوم فلسطینیوں کو خاک و خون میں نہلا دیتا ہے ۔امریکا اسرائیل کو سالانہ بنیادوں پر تقریباً تین ارب ڈالر کی دفاعی، معاشی اور تجارتی امداد دیتا ہے اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی امریکا اسرائیل کے حق میں اسکے موقف کی حمایت کرتا ہے۔ مسلم امہ کے 57ملکوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی کاوشیں صرف زبانی کلامی جمع خرچ سے آگے کچھ نہیں۔ مسلم امہ کی اسی کمزوری کے باعث اسرائیل کے حوصلے مزید بلند ہوتے جاتے ہیں۔ اس کے قدم گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صہیونی حکومت نے گریٹر اسرائیل کا جو نقشہ جاری کیا ہے اس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے علاوہ اردن، شام، لبنان اور دیگر عرب ممالک کو بھی اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران خواب غفلت سے بیدار ہوں۔ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر باہمی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتیں اپنا کردار ادا کریں۔ اقوام متحدہ کی جو قرار دادیں مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے منظور ہو چکی ہیں ان پر عمل کروایا جائے۔ OICبھی حالات کے مطابق اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

تازہ ترین