پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) میں حالیہ ترامیم نے پاکستان میں میڈیا تنظیموں، سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں کی جانب سے شدید احتجاج کو جنم دیا ہے۔ ان ترامیم پر اعتراضات بنیادی طور پر اس قانون میں شامل سخت پابندیوں، آزادیٔ اظہار پر قدغنوں، آن لائن اظہارِ رائے پر سخت سزاؤں اور اس قانون کے ممکنہ غلط استعمال کے امکانات کے گرد گھومتے ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ترامیم جعلی خبروں اورآن لائن ہراسمنٹ کے خاتمے کے لیے ضروری ہیں، لیکن ناقدین کو خدشہ ہے کہ یہ اقدامات ڈیجیٹل اسپیس پر آمرانہ کنٹرول کی راہ ہموار کریں گے۔ اس بحران کے حل کے لیے ایک متوازن اور جامع حکمتِ عملی درکار ہے، جو قومی سلامتی اور عوامی مفاد کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آئینی آزادیوں کی بھی پاسداری کرے۔ ذیل میں ایک ایسا فریم ورک تجویز کیا جا رہا ہے جو تمام متعلقہ فریقین کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے آزادانہ اظہارِ رائے اور ذمہ دار ڈیجیٹل گورننس کے فروغ میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
پی ای سی اے ایکٹ کے بنیادی مسائل
1۔ہتکِ عزت اور آزادیٔ اظہار کی فوجداری حیثیت : ترامیم کے تحت ہتکِ عزت کو ایک ناقابلِ ضمانت جرم بنا دیا گیا ہے اور اس کی سزاؤں کو مزید سخت کر دیا گیا ہے، جس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا استعمال اختلافِ رائے کو دبانے اور تحقیقی صحافت کو روکنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ قانون میںجعلی خبر کی تعریف مبہم ہے، جس سے من مانی گرفتاریوں اور منتخب نفاذ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ 2۔اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا فقدان:یہ قانون صحافیوں، ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں اور میڈیا تنظیموں سے کسی بامعنی مکالمے کے بغیر نافذ کیا گیا، جس سے شفافیت پر سوالات اٹھتے ہیں اور اس کی جلد بازی میں منظوری پر تشویش پیدا ہوتی ہے۔3۔ ایف آئی اے کے اختیارات پر عدالتی نگرانی کی ضرورت: پی ای سی اے کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) کو ملنے والے اختیارات کوعدالتی نگرانی کے تابع کیا جانا چاہئے تاکہ ڈیجیٹل قوانین کاسیاسی انتقام کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی کارروائی سے قبل عدالت کی پیشگی منظوری کو لازمی قرار دینا چاہیے تاکہ من مانی گرفتاریوں سے بچا جا سکے۔ 4۔صحافیوں اور مخبروں کے حقوق کا تحفظ :صحافیوں کو اس قانون کے تحت سخت سزاؤں سے مستثنیٰ قرار دیا جانا چاہیے، خاص طور پر جب وہ عوامی مفاد میں رپورٹنگ کر رہے ہوں۔ بدعنوانی اور دیگر اہم عوامی معاملات کو بے نقاب کرنیوالےمخبروں (Whistleblowers) کو علیحدہ قانون کے تحت قانونی تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ 5۔عوامی مشاورت اور میڈیا سے مکالمہ : حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن جیسے اداروں کے ساتھ کھلی بحث و مشاورت کا انعقاد کرے تاکہ ان کے خدشات کو سنا جا سکے۔ مستقبل میں ڈیجیٹل قوانین کے بہتر نفاذ کے لیےباقاعدہ گول میز کانفرنسز (Roundtable Conferences) کا نظام وضع کیا جائے، تاکہ ہر متعلقہ فریق کی رائے شامل ہو۔ 6۔مبہم اور بہت زیادہ وسیع دفعات پر نظرِ ثانی : قانون میں جعلی خبر اورسائبر کرائم کی واضح اور جامع تعریف ہونی چاہیے تاکہ اس کامن مانی تشریح کے تحت استعمال نہ کیا جا سکے۔ ایک شق شامل کی جانی چاہیے جو اس قانون کوماضی میں کیے گئے اقدامات پر لاگو نہ کرنےکی ضمانت دے، تاکہ ماضی کے جرائم کو بنیاد بنا کر کسی کو نشانہ نہ بنایا جا سکے۔7۔پاکستان کی بین الاقوامی معیار کے مطابق وابستگی کو مضبوط کرنا : کسی بھی ترمیم کو اقوامِ متحدہ کے آزادیٔ اظہار کے کنونشنز (U N Conventions on Freedom of Expression) کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ پاکستان عالمی انسانی حقوق کے فریم ورک کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی ڈیجیٹل رائٹس تنظیموں سے مشاورت کرے تاکہ پی ای سی اے ایکٹ کو عالمی بہترین پریکٹسزکے مطابق ڈھالا جا سکے۔
نتیجہ
پی ای سی اے ایکٹ کا تنازع پاکستان کے لیے ڈیجیٹل گورننس میں اصلاحات کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ میڈیا تنظیموں اور سول سوسائٹی کے حقیقی خدشات کو تسلیم کرے، ساتھ ہی ذمہ دارانہ آن لائن مکالمے کی ضرورت کو بھی مدنظر رکھے۔اس مسئلے کے حل کے لیے شفاف جائزہ عمل، قانونی ترامیم اور اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ناگزیر ہیں۔ اس سے نہ صرف اعتماد کی بحالی ممکن ہوگی، بلکہ بنیادی حقوق کے تحفظ اور مستقبل میں ڈیجیٹل قوانین کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعات کے امکانات کو بھی کم کیا جا سکے گا۔ایک متوازن اور جامع حکمتِ عملی اختیار کرکے پاکستان ایک ایسا فریم ورک تشکیل دے سکتا ہے جوسیکورٹی اور آزادی دونوں کو تحفظ دے، بجائے اس کے کہ ایک کو دوسرے پر قربان کر دیا جائے۔