• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملٹری کورٹس میں تو اسپیڈی ٹرائل کیا جاتا ہے: جسٹس حسن اظہر رضوی

سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی—فائل فوٹو
سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی—فائل فوٹو

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کر رہا ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سویلینز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہو سکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے، سپریم کورٹ کے تمام 5 ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کی شفافیت پر اتفاق نہیں کیا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے وکیل خواجہ احمد حسین سے کہا کہ دھماکا کرنے والے، ملک دشمن جاسوس سے ساز باز کرنے والے اور عام سویلینز میں کوئی فرق نہیں؟ آپ کو اپنے دلائل میں تفریق کرنی چاہیے۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میں کسی دہشت گرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سویلینز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو 21 ویں ترمیم نہ کرنا پڑتی۔

جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، ایسا کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ 21 ویں ترمیم بلا جواز کی گئی، اکسیویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے وکیل خواجہ احمد حسین سے کہا کہ ملٹری کورٹس میں تو اسپیڈی ٹرائل کیا جاتا ہے، 15 دن میں فیصلہ ہو جائے تو ضمانت ہونے نہ ہونے سے کیا ہو گا۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے، فرخ بخت علی پر ملک مخالف جنگ کرنے اور فوج کو بغاوت پر اُکسانے کا الزام تھا، ان کا کورٹ مارشل میجر جنرل ضیاء الحق نے 1974ء میں کیا تھا، انہوں نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی، کورٹ مارشل کرنے والے ضیاء الحق ترقی پا کر آرمی چیف بن گئے، ضیاء الحق کے آرمی چیف بننے کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ ہے۔

جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ اس دور میں تو کمانڈنٹ ان چیف اور ایئر چیف کو بھی اغواء کر لیا گیا تھا، اغواء کار نے اپنی کتاب میں وجوہات بھی تحریر کی ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس حسن اظہر رضوی سے سوال کیا کہ ویسے وجوہات کیا تھیں؟ 

جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب دیا کہ اس کے لیے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی۔ 

جسٹس حسن اظہر رضوی کے جواب پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

وکیل خواجہ احمد نے کہا کہ عدالت کے سامنے ایک مسئلہ بنیادی حقوق اور دوسرا قومی سلامتی ہے، عدالت نے دونوں میں توازن پیدا کرنا ہو تو بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے، عدالتی فیصلہ برقرار رہا تو کسی ملزم یا دہشت گرد کو فائدہ نہیں پہنچے گا، انسداد دہشت گری کا قانون موجود ہے جس میں گواہان کے تحفظ سمیت تمام شقیں ہیں، عدالت کسی بھی صورت شہریوں کو شفاف ٹرائل سے متصادم نظام کے سپرد نہیں کر سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سندھ میں گواہان کے تحفظ کا الگ سے قانون بھی موجود ہے۔

جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا گیا

آئینی بینچ نے جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا۔

سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ کی نظرِ ثانی درخواست واپس لینے پر جرمانہ ختم کیا گیا۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عظیم وکیل قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے ملک بنا، یہ آئینی بینچ قائد اعظم کی تصویر کے نیچے بیٹھا ہوا ہے، ہماری عدلیہ نے ماضی میں ایسے فیصلے کیے جن کے اسباب قوم کو بھگتنا پڑے، میری استدعا ہے مرکزی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کی جائیں، ایف بی علی کیس 7 رکنی بینچ کا فیصلہ تھا، یہ کیس بھی 7 رکنی آئینی بینچ سن رہا تھا، پچاس سال سے اگر کچھ غلط ہو رہا تھا تو آج یہ عدالت اسے بدل سکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دے کہ چلیں ہم جرمانہ ڈبل کر دیتے ہیں، یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں کی گئی ہے۔ 

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ویسے بھی ہماری درخواست کافی حد تک غیر مؤثر ہو چکی ہے، آئینی بینچ کافی حد تک کیس سن چکا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد خواجہ احمد حسین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے۔

قومی خبریں سے مزید