چند یوم قبل سندھ اسمبلی نے صوبے میں زرعی آمدن پر محصول کے نفاذ کا قانون منظور کرلیا ہے۔ اس سے قبل صوبہ بلوچستان کی اسمبلی نے بھی ایسے ہی قانون کی منظوری دی تھی۔ صوبہ خیبر پختون خوا اور پنجاب پہلے ہی ایسا کرچکے تھے۔ اب آئی ایم ایف سے معاہدے کی پاس داری کرتے ہوئے سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں نے بھی زرعی آمدن پر انکم اور سپر ٹیکس لگانے کی منظوری دے دی ہے۔
سندھ میں زرعی آمدن پر 45فی صد تک ٹیکس عائد ہوگا۔ تاہم لسٹڈ کمپنی بنانے پرزرعی شعبے سے20سے 28فی صد محصول وصول کیا جائے گا۔ زرعی آمدن 15؍ کروڑ سے زائد ہوئی تو سپر ٹیکس کا اطلاق بھی ہوگا۔
اس قانون کی منظوری کے موقعے پر اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے ہمیں بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔ ایف بی آر کرپشن کا گڑھ ہے، قانون مجبوری میں لایا جارہا ہے،ہم اگر ایسا نہیں کرتے توآئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ متاثر ہوتا اور پیپلز پارٹی نے ملک کی خاطر یہ فیصلہ قبول کیا ہے۔
سندھ اسمبلی میںقانون منظور ہونےکے بعد وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے کا کہنا تھاکہ زرعی ٹیکس صوبہ سندھ اور بلوچستان نے منظور کر لیا ہے، زرعی ٹیکس وقت کا تقاضا ہے جس کا دائرہ کار صوبوں تک پھیلایا جائے گا،چاروں صوبوں نے وفاق کے ساتھ ذمےداری کا مظاہر کرنا ہے۔
دریں اثناگزشتہ دنوں اسلام آباد چیمبر آ ف کامرس کے باہر میڈیا سے گفتگو اور ایک بیان میں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگ زیب نے زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کے لیے قانون سازی پر چاروں صوبائی حکومتوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ صوبائی اسمبلیزکی جانب سے زرعی انکم ٹیکس کے لیے قانون سازی خوش آئند امر ہے۔ اس عمل سےملک میں ٹیکس کی بنیادوں کو وسعت دینے میں مدد ملے گی۔
سندھ اسمبلی سے متفقہ طور پر منظورہونے والے قانون کے تحت سالانہ 6لاکھ روپے تک زرعی آمدن ٹیکس سے مستثنیٰ قراردی گئی ہے۔ سالانہ 56لاکھ سے زائد زرعی آمدن پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 45فی صد ہوگی۔ پروگریسیو سپر ٹیکس بھی متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت سالانہ 15کروڑ روپے تک آمدن پر سپر ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ سالانہ 50کروڑ روپے سے زائد آمدن پر زیادہ سے زیادہ 10فی صد سپر ٹیکس عائد ہوگا۔
چھوٹی کمپنیزکی زرعی آمدن پر 20فی صد اوربڑی کمپنیزکے لیے ٹیکس کی شرح 28فی صد مقرر کی گئی ہے۔ زرعی ٹیکس سندھ ریونیو بورڈ جمع کریگا۔ وزیراعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ قانون منظور نہ کرتے تو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ متاثر ہوتا، ہمارا ملک زرعی ہے، خدشات ہیں کہ زمیں داروں کو بہتر آمدن نہ ملی تو وہ کوئی اور کاروبار کریں گے۔
ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ کی ان باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے وفاق اور صوبوں کو مل کر ایسی حکمت عملی بنانی چاہیے جس کی مدد سے زرعی پیداوار بڑھانے کی ترغیبات اور سہولتیں بڑھیں۔ ایسے حالات میں جب اس برس سردیوں میں خشک سالی کے باعث پیداوار متاثر ہوئی، ہنگامی اقدامات اور زراعت کے جدید طریقے بروئے کار لانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ملک کو قحط سالی سے بچانے کی تدابیر غذائی ضروریات پوری کرنے اور معیشت کو ابتری سے بچانے کا لازمہ ہیں۔
تاریخ میں پہلی بار
زرعی آمدن پر محصول عائد کرنے کا مطالبہ بہت پرانا تھا،لیکن جاگیر داروں کی طاقت اس راہ میں ہمیشہ روڑے اٹکاتی رہی۔ اب بھی شاید ایسا نہ ہوتا، لیکن کیا کریں کہ وقت اور حالات کے جبر نے حکم رانوں کو یہ قدم اٹھانےکے علاوہ کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں تھا۔ آئی ایم ایف کی شرط تھی، چناں چہ بادلِ ناحواستہ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار بہ امرِ مجبوری گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں وفاقی حکومت نے زرعی آمدن پر جولائی 2025 سے ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس موقعے پر پارلیمان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ، محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے جنوری 2025 میں قانون سازی کی جائے گی، نیشنل فنانس پیکٹ پر وفاق کی صوبوں کے ساتھ پیش رفت ہورہی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت تک پاکستان میں زرعی آمدن پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں تھا۔
اس سے قبل گزشتہ برس جون کے مہینے میں یہ خبر آئی تھی کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان سے آئندہ مالی سال کا ٹیکس ہدف 12 ہزار 900 ارب روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چناں چہ حکومت نے ٹیکس اہداف کے حصول کے لیے ہر طرح کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس بارے میں ذرائع وزارت خزانہ کے حوالے سے خبر میں کہا گیا تھا کہ آئندہ مالی سال ایف بی آر کو 3ہزار490 ارب روپے کی زائد ٹیکس وصولی کرنا ہوگی، کیوںکہ آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال کا ٹیکس ہدف12ہزار900 ارب روپے مقرر کرنے اور انکم ٹیکس جمع کرانے والوں کی تعداد دگنا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد 30 لاکھ سے بڑھا کر 60 لاکھ کی جائے اور تاجروں کو ہر صورت انکم ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور زرعی اشیا، بیجوں، کھاد، ٹریکٹر اور دیگر آلات پر مکمل سیلز ٹیکس عائد کیا جائے۔ علاوہ ازیں خوراک، ادویات، اسٹیشنری پر10فی صد سیلز ٹیکس عائد کرنے اور ٹیکس ہدف حاصل ہونے میں مشکلات پر سیلز ٹیکس کی شرح ایک سے 2فی صد بڑھانے کی تجویز دی گئی تھی۔
بالآخر فیصلہ کرنا ہی پڑا
گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں حکومت اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان قرض کے نئے معاہدے کے لیے مذاکرات مکمل ہوچکے تھے۔ ان مذاکرات کے بعد کہا جارہا تھا کہ آئی ایم ایف نے حکومت سے مزید نئے ٹیکس لگانے کے ساتھ زرعی آمدن پر ٹیکس عائد کرنے پر زور دیا ہے۔ تاہم اس وقت تک اس پر حکومت کی جانب سے کوئی حتمی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
دوسری جانب معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد زرعی آمدن پر حکومت نے ٹیکس لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کا اطلاق جنوری 2025 سے کیا جائےگا۔ چاروں صوبوں میں زرعی آمدن پر سپر ٹیکس لگے گا اور زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کی شرح کارپوریٹ سیکٹر کی طرح زیادہ سے زیادہ 45 فی صدکی حد کو پہنچ سکتی ہے، یعنی45فی صد تک بھی ٹیکس عائد ہوسکتا ہے۔
زرعی شعبے پر اس طرح انکم ٹیکس عائد کرنے سے ایک ہزار ارب روپے جمع کیے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے مذاکرات کے دوران حکومت کو ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے ٹیکس کی آمدن بڑھانے پر زور دیاہے۔ اب حکومت ان دونوں شعبہ جات میں آڈٹ کے نظام کے ذریعے ٹیکس کلیکشن بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھائے گی۔ اس طرح ٹیکس وصولیوں کے بھی بڑھنے کا امکان ہے اور ٹیکس چوری کرنے والوں کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔
اس وقت یہ خبر بھی آئی تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں طے پایا ہے کہ روز مرہ استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ تاہم حکومت ایک آرڈی نینس کے ذریعے محاصل کی چوری روکنے کا نظام مزید موثر بنائے گی۔
اس نظام کو فعال بنانے کےلیے صوبائی حکومتوں کو بھی خصوصی اختیارات دیے جائیں گے۔ صوبائی حکومتیں ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرسکیں گی۔ آئی ایم ایف کےوفد کے ساتھ ملاقات کے دوران حکومت کے نمائندوں نے یکم جنوری سے زرعی آمدن پر ٹیکس عائد کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد سے صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے بھی ملاقات کی اور یقین دہانی کرائی ہے کہ یکم جنوری سے صوبے بھی زرعی آمدن پر ٹیکس وصول کرنا شروع کردیں گے۔
ان خبروں سے اسی وقت واضح ہوگیا تھاکہ حکومت زرعی آمدن پر ٹیکس کا نفاذ کرے گی۔ تاہم کس شرح سے نفاذ ہوگا، یہ اس وقت واضح نہیں تھا۔اس وقت تجزیہ کاروں کا موقف تھا کہ پہلے ٹیکس کی اس شرح کو معمولی رکھا جائے گا اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
تلخ، مگر حقیقت
پاکستان کی قومی ٹیکس پالیسی کی راؤنڈ ٹیبل پر پاکستان اور فریڈرک ایبرٹ اسٹفٹنگ اور پبلک سروس انٹرنیشنل کے ساتھ مشترکہ طور پر جاری ہونے والی رپورٹ میں 1.2ٹریلین روپے کے ٹیکس عمل درآمد کے خلا کی نشان دہی کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ5 بڑے سیکٹرز، تمباکو، چائے، رئیل اسٹیٹ، آٹو موبیلز اور فارماسیوٹیکلز 1.2ٹریلین روپے جمع کراتے ہیں۔
دوسری جانب قومی ٹیکس پالیسی کے سربراہ سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ تن خواہ دار طبقہ پرچون فروشوں سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ یہی بات رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر بھی صادق آتی ہے جو ملک کا سب سے بڑا سیکٹر ہے، لیکن وہ اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتا۔
واضح رہے ملک میں اب بھی ایسے شعبے موجود ہیں جہاں ٹیکس کی شرح ان کی حیثیت کے مطابق نہیں ہے، لیکن تن خواہ دار طبقہ ان سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پالیسی میں تبدیلی لائے تاکہ ان شعبوں پر بھی ٹیکس لگایا جائے جن پر ٹیکس نہیں ہے یا پھر ٹیکس کی شرح کم ہے۔
ایسا کیوں ہے؟
زراعت کا شعبہ اشرافیہ اور جاگیرداروں کے باعث ٹیکس سے ہمیشہ مستثنیٰ ہی رہا ہے جس کی وجہ سے دیگر مدات کی آمدن بھی اس شعبے سے ظاہر کرکے ٹیکس چوری کا راستہ بھی با آسانی کھلا رہتا آیا ہے۔ ہر حکومت کوشش کے باوجود اس ضمن میں کام یاب نہ ہو سکی یا پھر اس حوالے سے جان بوجھ کر آنکھ بند کرنے میں عافیت جانی گئی۔ آئی ایم ایف کا بار بار کا مطالبہ نہ ہوتا اور اس کی شرط نہ رکھی جاتی تو رئیل اسٹیٹ اور زراعت کا شعبہ شاید اب بھی چھوئی موئی ہی بنا رہتا۔
مگر اب اس پر اتفاق رائے ناگزیر تھا۔صوبوں کی جانب سے اس پر اتفاق اہم پیش رفت ہے ۔امر واقع یہ ہے کہ زراعت ایک ممکنہ شعبہ ہے جس سے خاطر خواہ آمدن ہوسکتی ہے۔ لیکن قومی معیشت کے تقریبا ایک چوتھائی حصے پر مشتمل ہونے کے باوجود، اس شعبے نے گزشتہ مالی سال میں 3.7ٹریلین روپے کے براہ راست ٹیکس کی وصولی میں 0.1فی صد سے بھی کم حصہ ڈالا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ زرعی انکم ٹیکس ایک صوبائی موضوع ہے، کیوں کہ یہ بڑے جاگیرداروں کے مفادات کے مطابق ہے جو اسمبلیز میں کافی سیاسی تسلط رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ، صوبوں کے پاس زرعی آمدن کا اندازہ لگانے اور اس کے مطابق ٹیکس وصول کرنے کی محدود صلاحیت ہوتی ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ فارم کی آمدن پر ٹیکس کی شرح دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن پر لاگو وفاقی شرحوں سے بہت کم ہے۔ زرعی آمدن پر سب سے زیادہ سلیب سندھ اور پنجاب میں صرف15فی صد تھا۔ لیکن تن خواہ دار افراد پر یہ شرح تقریباً 39فی صدتک ہے۔ فارم کی آمدن پر انتہائی کم شرح نے اثرانداز زرعی انکم ٹیکس کو ٹیکس دھوکا دہی کےلیے ٹیکس کی پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔
آئی ایم ایف کی ایک دستاویز میں بھی اس جانب اشارہ کیا گیاہے کہ زرعی آمدن پر ٹیکس کی چھوٹ اس شعبے کو قانونی اور بعض اوقات غیر قانونی، آمدن کی دیگر اقسام کے لیے ٹیکس پناہ گاہ بناتی ہے۔ انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے معیشت کے دیگر شعبوں سے آمدن کی زراعت میں منتقلی عام بات ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ زرعی آمدن پر وفاقی ٹیکس کی شرحوں کا اطلاق بجٹ کے لیے خاطر خواہ محصولات حاصل کر سکتا ہے اور باقی معیشت پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کر سکتا ہے۔ لیکن بعض ماہرینِ معیشت کا یہ موقف ہے کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک زرعی انکم ٹیکس کو عام انکم ٹیکس قوانین کے تحت تشخیص اور وصولی کے لیے مرکز کو منتقل نہیں کیا جاتا۔ اس کے لیے این ایف سی فورم پر اتفاق رائے اور پھر آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ جب تک ہم وہاں نہیں پہنچتے، صوبوں کو زرعی انکم ٹیکس کی شرح کو عام انکم ٹیکس کی شرحوں کے برابر لانا چاہیے اور اسے ایف بی آر کو منتقل کرنا چاہیے۔ فارم کی آمدن سے حاصل ہونے والی آمدن کو صوبوں کے درمیان تقسیم کیا جا سکتا ہے، جب تک کہ اسے قابل تقسیم ٹیکس پول کا حصہ بنانے کا معاہدہ نہیں ہو جاتا۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اس حوالے سے صوبے اور وفاق دونوں مثبت فیصلہ کریں گے۔
زرعی آمدن پر ٹیکس کے نفاذ میں وفاق اور صوبوں کاایک صفحے پر آنا خوش آئند امر ہے جس کے بعد ہی اس شعبے پر ٹیکس کے نفاذ کی نوبت آئی۔ صوبوں کی جانب سے زرعی انکم ٹیکس کے مطالبات پر اتفاق احسن امر ہے جس کے بغیر آئی ایم ایف سے حصولِ قرض کی راہ ہم وار ہونا ممکن نہ تھی۔
اب جب صوبوں کی جانب سے دست اعانت دراز کیا گیاہے تو وفاقی حکومت سے بھی توقع کی جانی چاہیےکہ وہ بھی صوبوں کے حقوق بہ حسن و خوبی ادا کرے گی۔ دراصل اہم معاملات پر اتفاق رائے ہی سے ملک چلتے ہیں، لیکن پاکستان میں تالی ایک ہاتھ سے بجانے کا رواج ہے جس پر نظرثانی ہونی چاہیے اور زراعت پر ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے پر اتفاق رائے کی طرح دیگر معاملات پر بھی قومی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا جائے تو بہتر ہوگا۔
کتنی آمدن اور کیسی مشکلات متوقع ہیں؟
بعض ماہرین اور تجزیہ کار ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ زرعی ٹیکس کی شرح بڑھانے کے مقاصد پورے نہیں ہو پائیں گے۔ دوسری جانب بعص ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ یہ تصور غلط ہے کہ زرعی ٹیکس سے آمدن نہیں بڑھے گی۔ برصغیر میں مغل اور برطانوی حکومتیں اپنی آمدن کے لیے بڑی حد تک زرعی ٹیکس پر انحصار کرتی تھیں تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ زرعی ٹیکس لگا کر محصولات کو بڑھایا نہیں جا سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ رواں سال پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنے کے لیے تقریباً 13 ہزار ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا ہدف پورا کرنا ہے جس میں 400 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف ایک سال یعنی مالی سال 2021 میں زرعی ٹیکس جمع نہ کرنے کے باعث اشرافیہ کو 105 ارب روپے کی سبسڈی ملی۔ ممتاز ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خیال میں اگردیانت داری سے ٹیکس وصول کیا جائے تو محض زراعت کے شعبے سے 850 ارب روپے سالانہ جمع کیے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور پاکستان اکنامک سروے کے مطابق ملک میں تقریباً 38 فی صد ملازمتیں اسی شعبے سے وابستہ ہیں اور یہ شعبہ ملک کے جی ڈی پی یعنی معاشی نمو میں 24 فی صد کا حصہ دار ہے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں جو تھوڑی بہت معاشی نمو نظر آتی ہے اس کی بنیادی وجہ زرعی شعبے کی قدرے بہتر کارکردگی ہے اور اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں زرعی شعبے نے گزشتہ سال 6.4 فی صد کی رفتار سے ترقی کی جو توقعات سے زیادہ ہے۔لیکن دوسری جانب اسی شعبے سے ٹیکس جمع ہونے کی شرح انتہائی کم نظر آتی ہے اور چاروں صوبوں سے گزشتہ سال جمع کیا گیا زرعی ٹیکس بہ مشکل چار ارب روپے تھا جو ملک میں جمع ہونے والے مجموعی ٹیکس کا محض ایک فی صد سے بھی کم تھا۔
زراعت سے ٹیکس جمع کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے، لیکن کئی معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت اس بڑے سیکٹر سے ٹیکس کی شرح انتہائی کم ہونے کے باوجود بڑی رقم اکٹھا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ مالی سال کے آخر میں محاصل کی وصولی کاشارٹ فال800ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث حکومت اب زراعت کے شعبے میں زیادہ ٹیکس جمع کرنے پر مجبور ہوئی۔
مالی سال2021 کے تخمینے کے مطابق 25 ایکڑیا اس سے بڑے فارم ہاؤسز ہی کی واحد کیٹیگری کے فارم ہاوسز کی آمدن کا تخمینہ670 ارب روپے تھا۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے بہ قول پاکستان کی ایک فی صد آبادی 22 فی صد بہترین اور زرخیز ترین زمین کی مالک ہے۔ اگر پاکستان کی چار فی صد اشرافیہ کی بات کی جائے تو اس کے پاس 34 فی صد زیر کاشت زرخیز ترین زمین موجود ہے لیکن یہ لوگ پورا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
ٹیکس کی شرح آئی ایم ایف کے کہنے پر15سے45فی صد تو کردی گئی ہے اور اس کے لیے تمام صوبوں نے قانون بھی منظور کرلیے ہیں، لیکن اس بات کا امکان بہت کم ہی ہے کہ اس سے ٹیکس ریونیو میں کوئی بڑا اضافہ ممکن ہوسکے گا، کیوں کہ اس ضمن میں اصل رکاوٹ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ اگر دیانت داری سے ٹیکس وصول کیا جائے تو محض زراعت کے شعبے سے 850 ارب روپے سالانہ جمع کیے جاسکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ میں اس حوالے سے زیارہ پُرامید نہیں ہوں کہ ملک کا بالادست طبقہ، جس کے پاس زرخیز ترین زمین موجود ہے آسانی سے ٹیکس دینے پر راضی ہوجائے گا۔ کیوں کہ اس بارے میں قوانین تو پہلے سے موجود تھے، یہ کوئی نئی قانون سازی نہیں ہے۔ البتہ اس بار زرعی ٹیکس کی شرح ضرور بڑھائی گئی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتیں یہ ٹیکس وفاقی حکومت کے دباؤ پر لگا رہی ہیں اور ظاہر ہے کہ وفاقی حکومت نے اس بارے میں آئی ایم ایف سے تحریری طور پر وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اس شعبے سے ٹیکس کلیکشن بڑھائے گی۔ ان کے بہ قول پہلی بات تو یہ ہے کہ زراعت کے شعبے میں نمو سے متعلق مستند ڈیٹا ہی دست یاب نہیں ہے۔ پھر بڑے زمیںداروں سے ٹیکس اکٹھا کرنا حکومت کے لیے ممکن نہیں، کیوں کہ وہ خود اقتدار کے ایوانوں میں ہیں اوراگرچہ ان کی تعداد کم ہے، لیکن زمین کا رقبہ کہیں زیادہ ہے۔
اس لیے ٹیکس بڑھانے کا نزلہ ان چھوٹے زمیںداروں پر ہی گرے گا جو کم آمدن اور زیادہ اخراجات سے پہلے ہی پریشان ہے۔ نتیجے کے طور پر وہ اپنی زمین بیچنے پر مجبور ہوں گےاور پھر وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز بنتی جائیں گی جس سے زراعت کے ساتھ ساری معیشت تباہ ہوتی چلی جائے گی اور اس کے اثرات پہلے ہی نمایاں ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت نے ریٹیلرز، پروفیشنلز اور رئیل اسٹیٹ مالکان سے مطلوبہ ٹیکس ہدف حاصل نہ ہونے پر زراعت پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ ٹیکس کی شرح کم یا زیادہ ہونا نہیں بلکہ ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کی بد عنوانی کا ہے۔ ان اداروں کی لوٹ مار اور کوتاہیوں کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں ٹیکس کم جمع ہوتا آیا ہے۔ یہاں تو کوئی اصلاحات یا تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی، لیکن اب ایسے کرپٹ عناصر کو ٹیکس کی شرح بڑھا نے سے کسانوں کو مزید تنگ کرنے کے موقع میسر آجائیں گے۔
بعض ماہرینِ زراعت کا موقف ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں زرعی ٹیکس جمع کرنا آسان نہیں، کیوں کہ اس میں ملک کے پاور اسٹرکچر اور سیاسی دباؤ جیسے عوامل حائل ہیں۔ ملک میں برسرا قتدار شخصیات کے قبضے میں نظام کی نبض ہوتی ہے اور ادارے کم زورہو رہے ہیں۔ اب بھی یہی مسائل ہیں۔ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کم زور ہیں۔ وہ سیاسی دباؤ اور سیاسی دوستی اور دشمنی میں بٹے ہوئے ہیں۔ کم زور ادارہ جاتی صلاحیت کے علاوہ زراعت سے متعلق ڈیٹا موجود نہیں۔
سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ اس میں ٹیکنالوجی کا سہارا لینے کی کوشش بھی نہیں کی جارہی۔ ملک میں زمینوں سے متعلق ڈیجیٹل ریکارڈ تک مکمل نہیں ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ گورننس کا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے میں سیاسی دباؤ کے ساتھ کرپشن، لیکیجز اور شفافیت کے فقدان کا بھی ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں اس بارے میں ہم آہنگی کا فقدان بھی واضح دکھائی دیتا ہے۔ جب تک ڈیجیٹائزیشن کا عمل نہ ہو، زرعی ٹیکس بڑھانے سے متعلق بلز کا فائدہ نہیں ہوگا۔