• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

کبانہ ہوٹل ڈیوس روڈ پر معروف اداکارہ طلعت صدیقی اور ان کی بیٹی عارفہ صدیقی پی ٹی وی سے ڈرامے کی شوٹنگ ریکارڈ کرانے کے بعد اکثر اپنی سفید رنگ کی واکس ویگن کار میں یہاں سے کھانا لینے آتی تھیں اور ہم بھی اکثر یہاں سے قیمے والے نان/ چکن کڑاہی لینے آتے تھے۔ کیا خوبصورت زمانہ تھا ڈیوس روڈ پر کئی پرانی اور وسیع کوٹھیاں تھیں اب پورے ڈیوس روڈ پر صرف چار کوٹھیاں رہ گئی ہیں ان میں سے صرف ایک کوٹھی میں رہائش ہے باقی خالی پڑی ہیں۔ ایک کوٹھی جس میں ایک مدت تک پنجاب پبلک سروس کمیشن کا آفس رہا تھا وہ ڈیوس روڈ جہاں پر صبح کے وقت بھی کوئی کوئی گزرتا تھا ۔آج رات کے دو بجے بھی موٹر گاڑیوں اور دیگر ٹریفک کا رش ہوتا ہے اس جگہ آغا خانیوں کا جماعت خانہ بھی ہے اور ڈیوس روڈ کے کچھ وہ رہائشی علاقے جہاں پر چھوٹے چھوٹے مکان ہیں وہاں پر کافی تعداد میں آغا خانی رہتے ہیں۔ یہ سڑک شہر کی دیگر سڑکوں سے ذرا مختلف پرسکون اور ٹھنڈی بھی تھی آج سے پچاس برس قبل یہ سڑک واقعی ولایت کے کسی علاقے کی معلوم ہوتی تھی ۔پشاور ہائیکورٹ کے پہلے چیف جسٹس ،جسٹس بشیر الدین تھری پیس سوٹ پہنےاور ہاتھ میں اسٹک پکڑ کر ڈیوس روڈپر واک کیا کرتے تھے اور ہم بھی کبھی کبھار ان کے ساتھ واک میں شریک ہو جایا کرتے تھے اور بعد میں ان کی رہائش گاہ جو کہ ڈیوس روڈ کی ایک بغلی سڑک پر تھی وہاں جاکر برآمدے میں بیٹھ کر چائے بھی پیا کرتے تھے۔ جسٹس بشیر الدین کئی پرانی باتیں ہم سے بیان کیا کرتے تھے کیا خوبصورت زمانہ تھا۔جسٹس بشیر الدین کی ہمارے دادا مولوی ابراہیم ناگی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے بھی بہت دوستی تھی چنانچہ کئی دلچسپ قصے وہ بیان کیا کرتے تھے اس سڑک پر آج بھی پاکستان کی پہلی خاتون پائلٹ رابعہ کی بڑی وسیع کوٹھی موجود ہے اور کوٹھی اسی پرانے انداز میں ہے ۔خیر لاہور میں اب گوروں کے دور کی صرف چند ایک ہی کوٹھیاں رہ گئی ہیں کبھی ماڈل ٹاؤن میں بے شمار قدیم کوٹھیاں ہوا کرتی تھیں اب وہاں کے مکینوں نے بھی پرانی کوٹھیاں گرا کر نئی کوٹھیاں اور آٹھ آٹھ کنال کے پلاٹ فروخت کرکے دو دو کنال، ایک ایک کنال کی کوٹھیاں بنا لی ہیں ۔وہ ماڈل ٹاؤن جس کو سر گنگا رام نے آباد کیا تھا کبھی بہت ہی خوبصورت اور وسیع علاقہ تھا اب یہ بستی بھی کمرشل ازم کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔

کبانہ ہوٹل کب کا ختم ہو چکا اب وہاں پٹرول پمپ ہے اور اسٹیٹ لائف کے پاس وہ جگہ ہے جہاں پر اچھا خاصا جنگل ہے ۔کبانہ کے برابر میں ایمبیسڈر ہوٹل بھی تھا عمارت تو آج بھی ہے مگر ہوٹل بند ہو چکا ہے۔ ایمبیسڈر ہوٹل شیخ محمد امین اور انٹرنیشنل ہوٹل شیخ محمد جمیل کا تھا دونوں بھائی تھے ایمبیسڈر ہوٹل کو اس کے مالک نے ایک بیرے اور یونین کی بدتمیزی پر بند کر دیا تھا اس کا جی ایم بڑا پررعب شخصیت اور ساڑھے چھ فٹ قد کا ہوا کرتا تھا۔

انٹرنیشنل ہوٹل کو ایک نامور سیاسی لیڈر اور ایک فنانس کمپنی نے تباہ کر دیا تھاہمیں آج بھی یاد ہے کہ ہماری پھوپھی کی شادی 1966ء میں انٹرنیشنل ہوٹل میں ہوئی تھی کیا خوبصورت ہوٹل تھا اور اس کے بیسمنٹ میں بھی تقریبات ہوا کرتی تھیں ۔ہوٹل کا ریسٹورنٹ بڑا وسیع اور خوبصورت تھا۔ایمبیسڈر ہوٹل کا سوئمنگ پول ڈیوس روڈ سے نظر آیا کرتا تھا بڑا خوبصورت سوئمنگ پول تھا ۔واپڈا ہاؤس کا سلوس ہوٹل بھی بڑا شاندار تھا وہ بھی بند ہو گیا واپڈا ہاؤس میں شیزان بیکری تھی وہ بھی بند کر دی گئی آواری کی جگہ پہلے نیڈوز پھر پاک لگژری تھا اور پھر ہلٹن تھا ۔آج ہم میاں میر چھاؤنی (موجودہ نام لاہور کینٹ) کے گرجا چوک سے گزر رہے تھے تو وہاں SAINT MARY MAGDALENE CHURCHکی مینٹینس ہو رہی تھی بہت اچھا لگا اور خوشی ہوئی کہ یہ سفید چونے کا چرچ بالکل اصل شکل وصورت میں بحال کیا جا رہا ہے کاش ہماری حکومت بھی تاریخی اور قدیم عمارات کو ان کے اصل فن تعمیر کے ساتھ بحال کرسکیں یہ بڑا تاریخی اور 158برس قدیم چرچ ہے جو آج بھی بڑی پرشکوہ اور خوبصورت عمارت کا حامل ہے اس چرچ کی تاریخ میں درج ہے کہ یہ گرجا گھر میاں میر کینٹ میں 1856ء میں تعمیر کیا گیا تھا دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چرچ پورے کا پورا لکڑی کا تھا اس کی عمارت لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی لاہور کا پہلا کنٹونمنٹ پرانی اور نئی انارکلی کا علاقہ تھا اور بینڈ اسٹینڈ گارڈن جسے گول باغ کہتے تھے اور اب ناصر باغ یہاں پر فوجی رائفل شوٹنگ کرتے تھے یعنی یہ رائفل رینج تھا انارکلی کا سارا علاقہ لاہور کی پہلی چھاؤنی تھی جہاں پر انگریز فوجیوں کی بیرکیں اور رہائش گاہیں بھی تھیں نئی انارکلی میں طوائفوںکے کوٹھے تھے طوائفوں کے کوٹھے لوہاری میں چوک چکلہ میں بھی تھے جسے اب چوک بخاریاں کہا جاتا ہے۔

سینٹ میری میڈیلن چرچ لاہور میں گوروں کی تعمیرات میں سے ایک یادگار اور خوبصورت گرجا گھر ہے۔اس خوبصورت چرچ کی تعمیر کا آغاز 1854ءکو ہوا اور 1856ء کو اس کی تعمیر مکمل ہوئی اور 23مارچ 1857ء کو یہ چرچ عبادت کیلئے کھولا گیا GOTHICچھتوں اور منفرد فن تعمیر کا حامل چرچ میاں میر چھاؤنی کے انگریزوں کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ہوسکتا ہے کہ اس چرچ میں لوکل مسیحی برادری کو بھی عبادت کی اجازت ہو لیکن یہ صرف انگریز فوجیوں کے لئے مخصوص تھا کہا جاتا ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران اس چرچ پر مسلمانوں کی طرف سےاتوار کے روز حملہ بھی ہوا تھا اس کی ایک یادگار کبھی گرجا چوک میں 1985ء تک رہی تھی یہ یادگار تکونی شکل کی تھی جو ہم نے خود بھی دیکھی تھی وہ ضیاء الحق کے زمانے میں یہاں سےاتار دی گئی تھی چرچ کے لئے یہ جگہ سرچارلس نپیئر نے منتخب کی تھی جن کے نام پر لاہور اور کراچی میں نیپئر روڈ بھی ہے۔(جاری ہے)

تازہ ترین