آج کل خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشت گردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں ۔ ان کے ٹریننگ کیمپ پاکستان سے باہر ہیں ۔یہ لوگ سیکورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بہت طاقتور ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز 1980ء کی دہائی میں ہوا۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے نظیر قربانیاں دیں جن کی تعداد 75000سے متجاوز ہو چکی ہے ۔ ان میں جری و بہادر سیکورٹی اہلکار اور بے گناہ شہری دونوں شامل ہیں۔ اقتصادی نقصانات بھی کسی طور کم نہ تھے جن کا تخمینہ 150ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ ان صدماتِ جانکاہ کے باوجود پاکستان کا عزم ہمیشہ فولادی اور غیر متزلزل رہا جو خطے اور عالمگیر امن کی خاطر اسکے انتھک ارادے اور ثابت قدمی کی روشن دلیل ہے۔ 2020ء کے قریب پاکستانی سیکورٹی فورسز نے ملک میں دہشتگردی پر قابو پالیا تھا مگر 15اگست 2021ء میں افغانستان میں اقتدار طالبان کے ہاتھ آیااور ہزاروں افراد کو رہا کیا گیا تو دوبارہ دھماکے شروع ہو گئے۔دہشتگردی کے خلاف کوئی بھی حکمت عملی اختیار کی جائے اس میںطاقت کے استعمال کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن اسکے سیاسی، معاشی اور سماجی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اس وقت مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ ’’جس طرح پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی، اسی طرح عوام کی حمایت کے بغیر کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی‘‘۔ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں زیادہ تر بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں دیکھنے میں آرہی ہیں جہاں ملک دشمن عناصر علیحدگی کی تحریک میں ملوث ہیں جنہیں بھارت اور افغانستان کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے۔ ڈی جی آئی پی ایس آر کی جانب سے ایک بار پھر کابل انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سرحد پار سے دہشتگرد کارروائیوں کو کنٹرول کرے اور پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے مگر کابل انتظامیہ پاکستان میں موجود دہشتگردوں اور خوارج کی نہ صرف بھر پور سر پرستی کر رہی ہے بلکہ انہیں افغانستان میں امریکا کا چھوڑا گیا جدید اسلحہ بھی فراہم کر رہی ہے جسے دہشتگرد ہماری سیکورٹی فورسز کے خلا ف استعمال کر رہے ہیں۔
افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں ۔ بی ایل اے اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کا آپس میں اتحاد ہے اور ان کا ایجنڈا پاکستان کی وحد ت وسلامتی کو نقصان پہنچانا ہے ۔امریکا افغانستان سے نکلتے ہو ئے جو اسلحہ پیچھے چھوڑ گیا تھا وہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، بی ایل ایف اور داعش جیسے دہشتگرد گروہوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جسے وہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ گروپس کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ خیبر پختونخوا میں ان دہشتگرد گروپوں کی کارروائیوں سے صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ اب صوبے کے عوام حکام سے ان دہشتگردوں کے خلاف سخت کارروائیوں کامطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کارروائیوں سے انکے کاروبار اور معمولاتِ زندگی متاثرہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والاحالیہ واقعہ اس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان کے دشمن ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے گھبرائے ہوئے ہیں۔سینٹر فارریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کے مطابق 2024ء میں ملک میں مجموعی طور پر 444دہشتگرد حملے ہوئے جن میں سیکورٹی فورسز کے کم ازکم 685ارکان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان واقعات میں عام شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں کو ملا کر مجموعی طور پر 1612افراد شہید ہوئے جبکہ 934شدت پسند بھی مارے گئے۔ اس سال مجموعی طور پرجو ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں وہ گزشتہ نو برسوں کے دوران سب سے زیادہ ہیں۔ تشدد کے سبب سب سے زیادہ نقصان خیبرپختونخوامیں ہوا جہاں 1616افراد ہلاک ہوئے جبکہ بلوچستان میں 782افراد مارے گئے۔ 2021ء میں امریکی انخلا کے بعد بھارت نے بھی افغانستان سے فرار میں عافیت سمجھی کیونکہ بھارت نے اشرف غنی حکومت پر جو سرمایہ کاری کی تھی وہ مشکلات کا شکار ہو ئی تو بھارت نے افغانستان سے جانے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سابق افغان صدرحامد کرزئی اور اشرف غنی کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا اور ان کے ادوار میں بھارت نے افغانستان پر نواز شات بھی کیں۔ ان نواز شات کا اصل ہد ف پاکستان کو سفارتی سطح پر نقصان پہنچانا تھا۔ بھارت اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا۔
ہماری سیکورٹی فورسز ان عناصر کے مذموم عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہیں اور ملک کے ہر کونے میں ان کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تاہم ہمار ی سیکورٹی نظام میں کچھ ایسی خامیاں بھی موجود ہیں جن کا فائدہ اُٹھا کر امن دشمن عناصر تخریب کاری کی کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سیکورٹی پالیسی سے متعلقہ امور کے ذمہ دار ان کو ان خامیوں کا پتا لگانا چاہیے اور ان پر قابو پانے کیلئے پالیسیاں بھی تشکیل دینی چاہئیں تاکہ دشمن کو اس کے ناپاک ارادوں کو پروان چڑھانے سے روکا جا سکے۔ بلاشبہ پاک فوج نے جس طرح ماضی میں پاک وطن کو امن کا گہوارہ بنایا تھا آئندہ بھی ایسے ہی اپنا کردار ادا کر تی رہے گی اور دشمن کو منہ کی کھانا پڑے گی ،بلوچ قومیت کے نام پر جس طرح دہشتگردی کی جاری ہے اس سے عام بلوچ شہری کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس میں مٹھی بھر عناصر شامل ہیں جو بھارت کی شہ، اسلحہ اور پیسہ ملنے کی بنا پر اس طرح کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں بگڑتی ہوئی امن وامان اور سیکورٹی کی صورتحال سے فوری طور پر نمٹنا ناگزیر ہو چکا ہے مگر عسکری قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانا چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان میں سیکورٹی اداروں ،وفاق، اور صوبائی حکومتوں سب کی ذمہ داریاں متعین ہیں ۔ ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھے اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے یکسوئی اختیار کرے۔