• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججز کی تقرری، جن کو بھرتی کیا گیا انہیں واپس جانا پڑیگا، حامد خان

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر رہنما تحریک انصاف سینیٹر حامد خان نے کہا ہے کہ ہماری موومنٹ لمبی ہوگی اور ان سب لوگوں کو جن کو آج بھرتی کیا گیا ہے ہم اس کے خلاف کھڑے رہیں گے، انہیں واپس جانا پڑے گا،رکن جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اختر حسین نے کہا کہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ چھبیسویں ترمیم جب تک ہے ا س وقت تک آئینی کورٹ کو فیصلہ کرنا چاہئے،سینئر رہنما تحریک انصاف شوکت یوسفزئی نے کہا کہ ڈسپلن ہونا چاہیے جو ہر پارٹی کی ضرورت ہے جس پارٹی میں ڈسپلن نہیں ہوگا تو اپنے مقاصد پورے نہیں ہوں گے۔ سینئر رہنما تحریک انصاف سینیٹر حامد خان نے اس سوال پر کہ وکلا کیا روک پائیں گے اس معاملے کو اس کے جواب میں کہا کہ فوری طور پر شاید نہ ہو ایسا لیکن ہماری موومنٹ لمبی ہوگی اور ان سب لوگوں کو جن کو آج بھرتی کیا گیا ہے ہم اس کے خلاف کھڑے رہیں گے اور انہیں واپس جانا پڑے گا کیوں کہ جگہ ایک تھی سات آٹھ بھر لیے گئے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی کیوں کہ اس میں دو سینئر موسٹ ججز نے واک آؤٹ کر دیا۔سپریم کورٹ کا جج مقرر کر رہے ہیں اتفاق رائے کے بغیر تو پھر یہ یکطرفہ تقرری ہوگئی اس کو ہم قبول نہیں کریں گے اس کو ہم چیلنج کریں گے۔یہ معاملہ فل کورٹ کے سامنے جانا چاہیے یہ آئینی کورٹ یا بینچ کی فارمیشن سے اس کاتعلق نہیں ہے۔یہ یقیناً لمبی کوششیں کرنی پڑیں گی ہوسکتا ہے چھ مہینے سال چلانی پڑیں اس طرح کی بے ضابطگی کرنے والے زیادہ عرصہ نہیں نکال پاتے۔اس طرح سے نظام نہیں چل سکتا ہے۔یہ نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ تقرری متنازع ہوجائے گی ۔ہم ساتوں کو سپریم کورٹ کا جج مانتے ہیں باقی سپریم کورٹ کے ججز جو چھبیسویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے ججز تھے وہ سن سکتے ہیں جو بعد میں چھبیسویں ترمیم کے تحت جس طرح اپائنٹمنٹ ہوئی ان کا کوئی کام نہیں ہے یہاں بیٹھیں۔جو لوگ یہ بات کر رہے ہیں وہ وکلاء میں مقبول نہیں ہیں پاکستان بار کونسل کے الیکشن ہوئے ہیں انہی کا ایک ممبر لاء منسٹر بھی بنا بیٹھا ہے اس لیے تقسیم مصنوعی ہے اور وہ وکیلوں کا نہیں سوچ رہے ہیں نا نظام کا سوچ رہے ہیں اپنے مفادات کا سوچ رہے ہیں۔رکن جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اختر حسین نے کہا کہ تلخ جملوں کا اس طرح تبادلہ نہیں ہوا منصور علی شاہ کا کہنا تھا انہوں نے خط لکھا ہے اور جسٹس منیب اختر کا بھی کہنا تھاکہ اس وقت تک اس میٹنگ کو ملتوی کیا جائے جب تک چھبیسویں ترمیم کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر جو ٹرانسفر ہوئی ہیں سینورٹی والے مسئلے پر فیصلہ نہیں ہوجاتالیکن چیف جسٹس نے کہا یہ آئینی مینڈیٹ ہے ہمارا اور میٹنگ ملتوی نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے بائیکاٹ کیا گیا۔ میں نے مخالفت اس لیے کی تھی کہ سرفراز ڈوگر کی جو سینورٹی ان کو ٹرانسفر کے بعد کیوں سنیئر جج نہیں بنایا گیا وہ متنازع ہے اس پر چیف جسٹس نے بھی کہا کہ ذاتی طو رپر یہ سمجھتا ہوں اور ان کا ویو جوڈیشل لحاظ سے نہیں ہے وہ بھی اس سینورٹی کو قبول نہیں کرتے اور سنیئر موسٹ نہیں ہوسکتے میرا کہنا بھی یہ تھا کہ جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوجاتا کہ سنیئر جج کون ہے یا اگر چیف جسٹس کو سپریم کورٹ میں لایا جاتا ہے تو ایکٹنگ چیف جسٹس یا چیف جسٹس کون ہوگا اس وقت تک عامر فاروق کو نہیں لایا جائے۔
اہم خبریں سے مزید