• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عناصرِ قدرت کا جائز استعمال ہو۔ انہیں آلودہ نہ کیا جائے تو انسانوں کیلئے سپاس گزار رہتے ہیں۔ تب پانی حیات کو توانائیاں بخشتا ہے۔ ہوائیں اٹکھیلیاں کر کے غنچوں کو چٹخاتی، خوشبوئیں سمیٹتی انسانی سانسوں کو معطر کر دیتی ہیں۔ ایسے صاف ستھرے ماحول میں یہ ہوائیں اپنے دوش پر بادلوں کے گالے اٹھائے انسانی بستیوں اور کھیت کھلیانوں پر چھما چھم برستی خوشحالی کی نوید لاتی ہیں۔ لیکن یہی انسان جب محسن کشی پر اتر آئے۔ لامحدود منفعت اور تجارت کیلئے عناصر قدرت کا استحصال شروع کر دے۔ انہیں تباہ و برباد اور پراگندہ کر دے تو نیچر کے ساتھ محبت کی یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے اور لطیف بے ضرر ہوائیں بھی انتقام پر آ جاتی ہیں۔ مادیت کے زیر اثر انسانوں نے جنگلات، فصلوں کی باقیات کو جلا کر کوئلے، گیس اور پٹرولیم کے بے دریغ تجارتی استعمال، مضر صحت کیمیکلز ملا کر اجلی ہوائوں کو آلودہ کر دیا ہے۔ انسان ہے کہ اپنی اس روش کو چھوڑ نہیں پا رہا۔ تجارت اور اپنی نسلوں کی امارت کیلئے قدرتی ماحول کے درپے آزار ہو چکا ہے۔ اس صورت حال میں ہوائیں بھی انسانوں سے برانگیختہ ہیں اور چار و ناچار انسان کی سرزنش کیلئے صف آرا ہو چکی ہیں۔ چنانچہ ہوائوں نے بھی انسانی آبادیوں کے اوپر آلودہ گیسوں سے بھرپور اسموگ کے گنبد تعمیر کر لیے ہیں اور آسمان کی بلندیوں پر گرین ہائوس گیسز کے حصار اور دائرے کھینچ کر انسانوں کو عذاب ناک حدت میں جکڑ لیا ہے۔ نہ صرف گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں نے انسان پر کاری ضرب لگا دی ہے۔ بلکہ دل، خون ،معدے، پھیپھڑے اور کینسر کی مہلک بیماریاں بھی پھوٹ پڑی ہیں۔ علاوہ ازیں سمندروں میں طغیانیاں، زمین پر خشک سالیاں اور کھیتوں کھلیانوں کی بربادی کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہ صورت حال دراصل عناصر قدرت اور ہوائوں کی طرف سے انسانی رویوں اور لالچ کے خلاف احتجاج ہی تو ہے۔ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر دنیا کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے چنانچہ فلورا اور فانا کی نسلیں معدوم ہو رہی ہیں۔ ہوائوں نے حدت میں اضافہ کر دیا ہے اور دنیا کے موسم تلپٹ ہو چکے ہیں۔ جنگلات کی بے قابو آگ اور ساحلوں پر Hurricanes اور طغیانیوں کی بھر مار ہے دنیا بھر میں زرخیز زمینیں قحط سالی کا شکار ہو رہی ہیں۔ کرئہ ارض پر 1.9ڈگری فارن ہائٹ تک ٹمپریچر میں اضافے سے امریکہ اور بیشتر ممالک میں تاریخی خشک سالی شروع ہو چکی ہے۔ نباتات اور حیوانات میں بیماریوں کا اضافہ دنیا کی معیشت پر بوجھ بن گیا ہے۔ زراعت پر برے اثرات کی وجہ سے گلوبل وارمنگ نے زمینی جنگلات اور بارشی ایکو سسٹم کو بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ عالمی خوراک کے ذخائر میں خاطر خواہ کمی ہو گئی اور ایک قیامت بر پا ہونے کو تھی تب ہوائوں کو برانگیختہ اور ناراض کر کے انسان اس دھرتی کے ماحول کا سنگین نقصان کر چکا اور اپنے گناہو ں سے تائب ہو گیا اور بین اقوامی اجتماعات منعقدہ پیرس، ٹوکیو اور برازیل میں اپنی ماحول کش حرکتوں سے کنارہ کشی کانہ صرف اعلان کیا بلکہ ہوائوں اور پانی کے استحصال کی تلافی کی یقین دہانیاں کروا چکا ہے ۔

عین ممکن تھا کہ انسان کی اس معافی تلافی کے ساتھ اصلاح ماحولیات کی وجہ سے دنیا رعنائیوں سے بھر جاتی کہ ’’عظیم ترین جمہوریت‘‘ کے نو منتخب رہنما نے جمہور ووٹوں کے بل بوتے پر دوبارہ ماحول کش اعلان کر دیا ہے اور عالمی وعدوں کو توڑتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے نو جوانوں اور آنے والی نسلوں کی معاشی خوشحالی کے لئے ماحول دشمن تجارت کا احیا کر رہے ہیں۔ جس کے لئے پٹرول، گیس اور کوئلے کا استعمال اور تجارت از بس ضروری ہے۔ اس خود غرضانہ معاشی اور سیاسی ترقی کے علمبرداروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پراگندہ اور مفلس ماحول خوشحالی کو نگل لیتا ہے اور ناقص ماحول کی کوکھ سے اگلی نسل کے ماحول بھی بد تر اور سفاک شکل میں جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ شدید خدشات ہیں کہ ماحولیاتی اصلاح سے کنارہ کشی کے بعد تیل، گیس اور پٹرول کا از سرنو فروغ کرئہ ارض کا درجہ حرارت محض دس سال میں 2.7ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا دے گا اور یوں دنیا میں آج کے تمام بچے موجودہ نسل سے زیادہ گرمی برداشت کریں گے۔ اسی طرح 2100ء میں پیدا ہونے والے بچے آج کے نو نہالوں سے چھ گنا زیادہ شدید موسمی حالات برداشت کریں گے۔ پانچ گنا زیادہ ساحلی علاقوں میں تباہی اور جنگلات کی آگ کا نظارہ کریں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ تب دوزخ جیسی یہ حدت اور آفات کی شدت جس کی لپیٹ میں دنیا کی اکثریت آ جائے گی امریکی دعوے دار اس گلوبل عفریت سے اپنی قوم اور آنے والی نسلوں کو کیسے بچا پائیں گے۔ ہر گز نہیں۔ تب نسلوں کی خوشحالیاں اور امارتیں وہیں غرقِ ماحول ہو جائیں گی۔

تازہ ترین