• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ فقط ڈاکٹر ہارون احمد یا اقبال آفریدی جیسے ہی ماہر نفسیاتی امراض ہی جان سکتے ہیں کہ آخرکار طاقت اور اقتدار کے نشے میں آدمی کے دماغ کی کونسی چولیں خطرناک طور پر ہل جاتی ہیں کہ وہ تشدد اور واہیات گری کو فائن آرٹس میں بدل دیتا ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے اس ملک میں غلام محمد سے لے کر ضیاء الحق تک،جام صادق علی سے لیکر سید قائم علی شاہ تک سب کے سب اعلیٰ و صحتمند دماغ کے مالک تھے۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ حال ہی میں اس جہان رنگ بو سے وداع کر جانے والے عظیم جادوئی حقیقت نگار مصنف و ناول نگار گبرئیل گارشیا نے لکھا ہے کہ طاقت کے بے ذریع استعمال سے ایک حد ایسی بھی آتی ہے کہ حکمران اس کے استعمال سے جنسی لذت سی محسوس کرنے لگتے ہیں لیکن سندھ میں ہر دور کے حکمران تو اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں گدو بندر کی دیواریں پھلانگ کر۔ کوئی کہتا ہے کہ نہیں یہ سندھ کے حکمرانوں کو بھنگ کا نشہ ہے۔ ملنگ لوگ کہتے ہیں کہ بھنگ کا نشہ تو آدمی کو بدمست نہیں سرمست بناتا ہے۔یہ صرف سندھ میں جام صادق علی کا مسئلہ نہیں تھا پر اس کے بعد آنے والے ہر حکمران میں جام صادق علی کی روح نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ جام صادق علی جس سے جب ایک دفعہ ایاز امیر نے کہا تھا کہ وہ سیاسی مخالفین سے انتقام میں ان کی خواتین یا بے نظیر بھٹو کی اس وقت کی حزب مخالف پی پی پی کی خواتین کارکنوں کے ساتھ سی آئی اے سینٹر کراچی میں ان کے نازک اعضا میں نمک مرچیں ڈلوانے سے باز آجائيں تو اس نے جواب میں کہا تھا "ہم لوگ اب مہذب ہوگئے ہیں اب ہم سیاسی مخالفین کے عورتوں کے نازک اعضا میں نمک مرچیں نہیں ٹوباسکو ساس ڈلواتے ہیں"۔ جی ہاں جام کے استاد بھٹو نے تو سیاسی مخالفین کی عورتوں کو تھانوں میں بند کرانے اور ان پر عقوبتیں ڈھلوانے کے کلچر کی بنیاد ڈالی تھی۔
ویسے بھی روایت ہے کہ جب سندھی وزیر اعلیٰ ہوتا ہے تو وہ تین کام کرتا ہے ایک اپنے گائوں میں نیا بنگلہ بنواتا ہے، نئی شادی کرتا ہے اور مخالفین کو جیل میں ڈلواتا ہے۔ جب سندھ میں پی پی پی کی حکومت نہیں ہو گی تو سب سے پہلا کام جو سندھ کے لوگ کریں گے وہ سانگھڑ، نوابشاہ اور ٹنڈو اللہ یار کے لوگ سب سے پہلے سڑکوں پر آکر اپنی نہروں کے وہ پشتے توڑ دیں گے جو ان کی زمینوں سے پانی زرداری کی زمینیں سیراب کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ سندھ میں یہ جو لوگ اغوا برائے تاوان ہو رہے ہیں ان کو کہاں رکھا جا رہا ہے۔ سندھ کی حکمران پارٹی کی بعض طاقتور شخصیات کی زمینوں اور فارم ہائوسز پر! پھر بھی قائم علی شاہ نے مبینہ طور پر گزشتہ دنوں اپنے دورہ خیرپور کے دوران جہاں سب سے زیادہ لوگ اغوا برائے تاوان میں یرغمالی بنے ہوئے ہیں پولیس افسران سے پوچھا کہ بابا یہ یرغمالی کہاں ہیں؟ اس دن سندھ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کی کرسی پر وہ خاتون نائب اسپیکر براجمان تھی جس نے فقط خود آمریتوں میں انتقام بھگتا ہوا تھا بلکہ خود بھی ایک خاتون ہیں۔ فلور پر سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ تھر میں قحط پر اپنی حکومتی کارگردگی کی تفصیلات اور قحط کے سبب بچوں کی اموات پر مخالفین اور میڈیا کی مبینہ غلط بیانی کے بارے میں جوش خطابت دکھا رہے تھے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے تھر کی عورتوں کے بچوں کو جنم دینے کے حالات کی "منظر نگاری" کرتے ہوئے کہا کہ تھری عورتیں تھر کے رسم و رواج کی مطابق بچوں کو جنم دینے اسپتال نہیں جاتیں بلکہ وہ اپنی جھونپڑیوں میں دائیوں سے ڈلیوری کراتی ہیں پھر جب بچہ باہر نہیں آتا تو (ہاتھوں اور بازوئوں کی حرکت کے اشاروں سے) تو اس کو کھینچا جاتا ہے۔ (اسمبلی ہال میں قہقہے ڈپٹی اسپیکر کی مسکراہٹ،سوائے مسلم لیگ فنکشنل کے خواتین کی ارکان کے)۔ یہ بھی الزام ہے کہ سندھ کی سب سے بڑی کرسی اقتدار پر براجمان وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس دفعہ سردی بھی بہت تھی صفر سیلولیئس پر بھی سردی نیچے گئی تھی۔ بچے زچگی کے دوران فوت ہوئے۔ بھوک سے نہیں (قہقہے)۔
تو پس عزیزوں، اسی طرح تھر کی خواتین، سندھ کی خواتین اور ملک کی خواتین کا استحقاق مجروح ہوا، اس تھر کی خواتین کے متعلق ایسے جملے جو کوئی شاید صاحب عزت نفس مسخرہ بھی ادا نہ کرے۔ خدا کرے کہ یہ بہتان ہو کہ سندھ کے صاحب اقتدار اعلیٰ نے خواتین کی زچگی کی نقل اتاری، اس تھر کی جہاں کے عظیم عورت مارئی آج عظمت، عصمت اور حب الوطنی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ جس نے سونے چاندی پر کبھی اپنے لوگوں کا سودا نہیں کیا تھا۔ جس نے عمر سومرو بادشاہ کی قید میں سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔
حیرت ہے تھر کی عورتوں اور لوگوں کا استحقاق ان لوگوں نے مجروح کیا جن کو اقتدار اعلیٰ عوام نے سونپا تھا۔ یہ کوئی فوجی امر نہیں تھے بلکہ فوجی آمروں جیسا انداز اختیار کیا گیا،ان کے انداز بدتمیزی سے بھی لوگ مر گئے کیونکہ لفظ ہی قتل کرتے ہیں۔ حریت ہے کہ ایم کیو ایم اور خاص طور پر ان کی خواتین منتخب اراکین بھی تھر کی خواتین سمیت ملک کی تمام غریب خواتین کی بے حرمتی پر خاموش رہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اس پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی سربراہ بے نظیر بھٹو جیسی خاتون تھیں۔ جس کے سربراہ دو بیٹیوں کے باپ اور دو بہنوں کے بھائی ہیں۔ کیا ان میں اتنی حمیت ہے کہ وہ ان کو سندھ کی سب سے بڑی کرسی اقتدار سے چلتا کریں کہ وہ اب ذہنی طور پر شاید ہی اس کے لائق رہے ہوں۔ ان کی خود جمہوریت کیلئے قربانیاں اپنی جگہ۔ کارل یونگ نے کہا تھا کہ آمروں سے لڑتے لڑتے بھی بندہ خود آمر بن جاتا ہے۔اسی سندھ کی حکومت کی پولیس کراچی پریس کلب کے سامنے اس بلوچ نوجوان لطیف جوہر کے بھوک ہڑتالی کیمپ پر چڑھ دوڑی جو اس کالم کے لکھنے تک گزشتہ چار سو گھنٹوں سے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر ہے۔ لطیف جوہر نے گزشتہ ماہ اپریل کے آخری ہفتے میں بلوچ طالب علم رہنما اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن یا بی ایس او (آزاد) کے سینئر چيئرپرسن زاہد بلوچ کی گمشدگی کے خلاف اور اس کی آزادی کیلئے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کر رکھی ہے۔ زاہد بلوچ کو نہ زمین نکل گئی نہ آسمان کھا گیا بلکہ اسے اس کے ساتھیوں کے سامنے فرنٹیئر کور کے وردی پوش اہلکار اغوا کر کے لے گئے۔ کریماں بلوچ بی ایس او آزاد کی سنیئر وائس چیئرمین بھی اپنے ديگر ساتھیوں سمیت اٹھارہ مارچ کو کوئٹہ میں موجود تھی جب زاہد بلوچ کو ریاستی فرشتے اٹھا کر لے گئے۔ بقول کریماں بلوچ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے زاہد بلوچ کو بزور بندوق زبردستی اٹھائے جانے پر زبانی مزاحمت اور احتجاج کیا تو ان کو دھمکی دی گئی کہ وہ زاہد بلوچ کو گولی ماردیں گے۔ زاہد بلوچ ان ہزاروں گمشدگان کی طرح اب تک لاپتہ ہے جن کو ریاستی ایجنسیاں اٹھا کر لے گئی ہیں۔ اب تو کراچی سمیت سندھ بھی بلوچستان بنایا جا رہا ہے جہاں سیاسی کارکنوں کی لاشیں مل رہی ہیں بلکہ دیگر صوبوں سے بھی مسخ شدہ لاشوں کا "ڈمپنگ گرائونڈ" سندھ کو بنایا جا رہا ہے۔ لاپتہ لوگوں کی لاپتہ قبریں۔ جب متحدہ نے اپنے کارکنوں کی گمشدگی اور پھر ان کی ٹارچر شدہ لاشوں پر احتجاج کیا تو سندھ کے وزیراعلیٰ نے اسے افسوسناک قرار دیا۔ واقعی افسوسناک صورتحال ہے۔
کراچی پریس کلب کے سامنے زاہد بلوچ کی گمشدگی کے خلاف احتجاجی کیمپ گزشتہ پندرہ دنوں سے قائم ہے جہاں لطیف جوہر تادم مرگ بھوک ہڑتال پر ہے باوجود اپنے ساتھیوں اور ہمدردوں کی درخواستوں کے اس نے بھوک ہڑتال جاری رکھی ہوئی ہے لیکن "محب وطن" صحافیوں یا میڈیا کے لوگوں کو اس پر لکھنے اور نشر کرنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ یہ پرامن اور عدم تشدد پر یقین رکھنے والے، احتجاج کرنے والے بلوچ بھی ان کی نظر میں غدار بنتے ہیں یا پھر کہیں ان کی رپورٹنگ اور کوریج پر یہ "محب وطن" بھی کہیں غدار نہ ٹھہرائے جائيں۔
تازہ ترین